• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 24925

    عنوان: كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟ كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟ نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟ الحمد للہ: اول: نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں. ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے. اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں: " اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى" اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى. اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے" اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے. ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 511 ). دوم: اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو. اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے. علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں. ديكھيں: الباعث الحثيث ( 1 / 278 ). مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ " القول المنيف فى حكم العمل بالحديث الضعيف " كا مطالعہ كريں (kya ye sahee hay is ke aqwal drusst hay )

    سوال: كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟ كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟ نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟ الحمد للہ: اول: نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں. ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے. اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں: " اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى" اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى. اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے" اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے. ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 511 ). دوم: اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو. اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے. علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں. ديكھيں: الباعث الحثيث ( 1 / 278 ). مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ " القول المنيف فى حكم العمل بالحديث الضعيف " كا مطالعہ كريں (kya ye sahee hay is ke aqwal drusst hay )

    جواب نمبر: 24925

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1502=438-10/1431

    شعبان کی پندرہویں رات کے فضائل احادیث میں مذکور ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوق کی طرف ایک خاص توجہ فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ ور آدمی کے سوا سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں (رواہ الطبرانی وابن حبان فی صحیحہ عن معاذ بن جبل، الترغیب والترہیب) دوسری حدیث میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو میں تلاش کے لیے نکلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ اتنے لوگوں کو جہنم سے نجات دے گا جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر چند بدنصیب شخصوں کی طرف اس رات بھی نظر عنایت نہ ہوگی، یعنی مشرک، کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والا اور پاجامہ تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا اور شراب نوش (رواہ البیہقی کذا فی الترہیب) یہ اور اس طرح کی روایات سے پتہ چلا کہ شب براء ت کی فضیلت ثابت ہے نیز اس رات میں باری تعالیٰ کا بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماکر چند محروم القسمت لوگوں کے علاوہ باقی ساری مخلوق کی مغفرت فرمانا بھی ثابت ہے، یہ حدیث متعدد طرق سے ثابت ہے جن میں بعض حدیثیں حسن درجے کی ہیں اور بعض ضعیف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ دوسری بعض روایات میں شعف، ضعف شدید نہیں جو فضائل اعمال میں معتبر نہ ہو اور جمہور محدثین کا اتفاق ہے کہ حدیث ضعیف سے فضائل اعمال میں استدلال کیا جاسکتا ہے، مشہور سلفی عالم ناصر الدین البانی سلسلة الاحادیث الصحیحة میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں: وجملة القول أن الحدیث بمجموع ہذہ الطرق صحیح بلا ریب إلخ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ان مجموعہ طرق کی وجہ سے بلاشبہ صحیح اور حدیث کی صحت تو اس سے کم عدد سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور جو لوگ اس حدیث کی تضعیف کے قائل ہیں انھوں نے حدیث کے طرق کی تتبع وتلاش نہیں کی (سلسلة الاحادیث الصحیحة) البتہ اس رات میں جشن منانا، آتش بازی کرنا، حلوہ بنانا وغیرہ امور لائق ترک ہیں۔ 
    سوال میں درج جواب سے من اولہ الی آخرہ اتفاق نہیں ہے اس رات کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس رات میں بدعات وخرافات کرنا جن کا ذکر اوپر آچکا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند