Pakistan
سوال # 246
کچھ لوگ اعترا ض کرتے ہیں کہ پانی پر قرآنی دعا پھونک کر نہیں پیا جاتا بلکہ انسان کے اوپر دم کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں پر پھونکنا منع ہے۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ ہمیں حدیث وغیرہ کے حوالے سے بتائیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عمل پھونکنے کا ثابت ہے، تاکہ ہم اور دوسرے حضرات مطمئن ہوں۔ نیز، جو دودھ کے پیالے کا واقعہ ہے کہ ایک پیالے میں تیس صحابہ نے پیا ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دم کیا یا پھونکا تھا؟ براہ کرم، جواب تفصیل سے دیں تاکہ ہم سب کو تسلی ہوجائے۔جزاک اللہ!
Published on: May 1, 2007
جواب # 246
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 454/ج=454/ج)
مشکوٰة شریف میں ہے: عن علي رضي اللّہ عنہ قال بینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات لیلة یصلي فوضع یدہ علی الأرض فلدغتہ عقرب فناولہا رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم بنعلہ فقتلہا ... ثم دعا بملحٍ و ماءٍ فجعلہ في إناء ثم جعل یصبّہ علی أصبعہ حیث لدغتہ ویمسحہا ویعوذہا بالمعوذتین. ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرمارہے تھے، آپ نے اپنے ہاتھ کو زمین پر رکھا تو بچھو نے آپ کو ڈس لیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جوتے سے مارڈالا... پھر نمک اور پانی منگاکر ایک برتن میں کیا اور جس جگہ بچھو نے ڈنک مارا تھا اس جگہ پانی ڈالتے جاتے اور پونچھتے جاتے اور معوذتین پڑھ کر دم فرماتے جاتے...
ایسا پھونکنا (دم کرنا) جس میں کچھ تھوک بھی شامل ہو جیسے غزوہٴ خندق کے موقع پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت میں آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے کیا تھا، ثابت ہے۔ اس میں فبصق کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن الاکوع -رضی اللہ عنہ- کو چوٹ آگئی تھی تو آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ان کو پھونکا، یعنی دم کیا تھا، جس میں نفث فیہ ثلاث نفثات آیا ہے۔ اسی طرح حضرت ام سلیم -رضی اللہ عنہا- کے واقعہ میں آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے کھانے پر کچھ پڑھا، جس سے مراد دم کرنا ہی ہے۔ یہ روایتیں مشکوٰة میں ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے۔ میری قوت حافظہ بہت کمزور ہے ، حتی کہ میں قرآن کی چھوٹی آیت سو بار پڑھنے کے بعد بھی یاد نہیں رکھ پاتا۔ کبھی کبھی جب کچھ دنوں میں قرآن پاک سے کچھ یاد کرتا ہوں ، اگر اسے روزآنہ نہ پڑھوں تو بھول جاتا ہوں۔ آپ سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست ہے۔
کسی کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا کیسا ہے؟
چلتے پھرتے ذکر کرنا صحیح ہے؟ مثلاً بازاروں میں یا ایسی جگہ پر جہاں گانا بجانا ہوں یا دنیوی باتیں ہورہی ہوں۔
براہ کرم، مجھے قبولیت دعا کا کوئی وظیفہ بتلادیں۔ نیز، میرے لیے دعا فرمائیں۔
میری چچی انگلینڈ میں رہتی ہیں، وہ بیمار ہیں ، ان پر آسیب اور سایہ یا کالا جادو ہے جو کسی رشتہ دار نے کیا ہے۔ انھیں سر میں درد محسوس ہوتا ہے اور بے چینی محسوس ہوتی ہے اور روتی ہیں۔ ان کا نام معراج ہے اور ان کی ماں کا نام مہہ جبیں ہے۔ امید کہ آپ مجھے ان کے علاج کے سلسلے میں کچھ رہ نمائی فرمائیں گے اور ان کا مسئلہ حل کرنے میں میری مدد فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے گا۔ امید کہ فوری اور مثبت جواب دیں گے۔
میری بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے، لیکن میں اس کو طلاق نہیں دینا چاہتا۔ براہ کرم، مجھے کوئی سورة، کوئی دعا یا ذکر بتلادیں اور میرے لیے دعا فرمائیں۔
براہ کرم، درج ذیل حديث ملاحظہ فرمائیں۔ یہ حدیث واضح طور پر تعویذ پہننے کی مذمت کرتی ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ دیوبندی علماء اس کو درست مناتے ہیں۔ وہ حدیث یہ ہے: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی تعویذ پہنے، اللہ اس کی حاجت نہ پوری کرے۔ اگر کوئی بحری سیپ پہنے اس کو کچھ آرام نہ ہو۔ (رواہ احمد و حاکم)
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم کوئی ذاتی پریشانی یا کاروباری برکت کے لیے تعویذات کا استعمال کرسکتے ہیں؟ عام طور پر لوگ یہ کام کررہے ہیں، ایسا کرنا کہاں تک صحیح ہے؟
کسی پریشانی یا روزگار کے لیے ایک وظیفہ ہے جو سورہ یس کا وظیفہ ہے جس میں کچھ لوگ اکٹھا ہوکر ایک سو ایک مرتبہ سورہ یس پڑھتے ہیں اور ایک مٹی کا گھڑا پانی سے بھر کر رکھ لیتے ہیں۔
کچھ لوگ نماز کے بعد سر پر ہاتھ رکھ سات مرتبہ یا قوی پڑھتے ہیں ، کیا اس کا ذکر کسی حدیث میں ہے؟ اور کچھ لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں ، کیا یہ بدعت ہے؟اور اگر بدعت نہیں تو کیا ہے؟