متفرقات >> دعاء و استغفار
سوال نمبر: 154451
جواب نمبر: 154451
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1478-1492/H=1/1439
استخارہ کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ جب کسی کام کو کرنے سے پہلے اس میں تردد ہو کہ اس کو کرے یا نہ کرے تو استخارہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے ازالہٴ تردد کی دعا مانگے، تاکہ دلی میلان کسی ایک جانب ہوجائے، یہی استخارہ کا اصل مقصود ہے، اور یہ بات خوب اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ صلاة استخارہ امر مباح کے لیے ہی جائز ہے، امر حرام یا فرض کے لیے جائز نہیں ہے، مثلاً حج کے بارے میں استخارہ کرنے لگے کہ جاوٴں یا نہ جاوٴں، تو یہ جائز نہیں ہے، ہاں یہ استخارہ کرسکتا ہے کہ فلان دن جاوٴں یا نہ جاوٴں، استخارہ کی نماز کے لیے الگ سے تو کوئی شرط نہیں ہے؛ لیکن اس کے لیے ان شرائط کو کہہ سکتے ہیں جو دیگر صلوات مفروضہ یعنی فرض وغیرہ نمازوں کے لیے ضروری ہیں، اور یہ عمل یعنی صلاة استخارہ اپنے علاوہ کسی دوسرے سے کروایا جاسکتا ہے، اور اس نماز کا جواب کبھی اللہ تعالیٰ خواب میں دکھلا بھی دیتے ہیں؛ لیکن خواب میں ہی دیکھنا تکمیل استخارہ کے لیے لازم اور ضروری نہیں ہے؛ بلکہ دل کا رجحان اصل چیز ہے، اللہ تعالیٰ بندے کا دل جس جانب بھی چاہیں متوجہ کردیں، اور رہی یہ بات کہ اس عمل کو لوگوں سے بتایا جاسکتا ہے کہ میں نے صلاة استخارہ پڑھی ہے تو اس چیز میں ویسے تو کوئی قباحت نہیں ہے؛ لیکن اگر لوگوں کے سامنے اپنی بزرگی کو جتلانے کے لیے بتایا جائے تو پھر ریاکاری کے تحت آجائے گا، اور اگر جواب خواب میں ظاہر نہ ہو تو بہتر ہے کہ یہ عمل سات دن تک کیا جائے؛ لیکن اگر سات دن میں بھی جواب ظاہر نہیں ہوا تو مسلسل استخارہ کرتا رہے تاکہ رجحان کسی ایک جانب ہوجائے۔ ہکذا فی امداد الفتاوی وغیرہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند