• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 8304

    عنوان:

    میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر کیوں آپ لوگ کسی بھی سوال کا تفصیل سے جواب نہیں دیتے،خاص کر جب سوال مسلکوں سے جڑا ہوتا ہے؟ میں یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ آخر کون سا مسلک صحیح راستے پر ہے مگر یہ دیکھ کر کی ہر مسلک کے علما دوسرے کو غلط ٹھہراتے ہیں بڑا ہی افسوس ہوتا ہے۔ آخر کیوں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر لڑ رہے ہیں؟ ان باتوں سے کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں۔ میری اصلاح کریں ۔ بڑی کشمکش میں ہوں۔

    سوال:

    میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر کیوں آپ لوگ کسی بھی سوال کا تفصیل سے جواب نہیں دیتے،خاص کر جب سوال مسلکوں سے جڑا ہوتا ہے؟ میں یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ آخر کون سا مسلک صحیح راستے پر ہے مگر یہ دیکھ کر کی ہر مسلک کے علما دوسرے کو غلط ٹھہراتے ہیں بڑا ہی افسوس ہوتا ہے۔ آخر کیوں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر لڑ رہے ہیں؟ ان باتوں سے کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں۔ میری اصلاح کریں ۔ بڑی کشمکش میں ہوں۔

    جواب نمبر: 8304

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1279=1094/ل

     

    دارالافتاء میں صرف احکام بتائے جاتے ہیں مثلاً یہ کام جائز ہے /ناجائز ہے/ مکروہ ہے / خلاف اولیٰ ہے وغیرہ وغیرہ۔ دلائل کبھی لکھ دیے جاتے ہیں، اور کبھی نہیں لکھے جاتے ہیں کیونکہ یہ پوچھنے والا اگر عامی ہے تو اس کو لادئل سے کوئی مطلب نہیں اور اگر عالم ہے تو وہ خود کتابوں کامطالعہ کرے مفتی کا کام دلائل بتلانا نہیں ہوتا ہے، اسی طرح اگر کوئی سوال تفصیل طلب ہوتا ہے تو کچھ ضروری باتیں لکھ کر معتبر کتابوں کا حوالہ لکھ دیا جاتا ہے تاکہ آدمی مفصلاً وہاں مطالعہ کرلے۔ اگر سوال کا جواب تفصیل سے لکھا جائے تو بہت سارے استفتاء ات رکے رہ جائیں گے اور لوگوں کا بڑا حرج ہوگا، جہاں تک مسلک کا تعلق ہے تو اجمالاً اس کا ذکر یہ ہے کہ امت کے معتد بہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے متبعین حق پر ہیں، ان کے علاوہ جتنے مسالک ہیں وہ سب جادہٴ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں، ان ائمہ کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ اجتہادی ہیں اور مجتہد کے بارے میں یہ آیا ہے کہ اگر وہ غلطی بھی کرے تو بھی اس کو ایک اجر ملتا ہے، نیز غلطی کا جاننا اس دنیا میں ممکن نہیں بلکہ اس کا پتہ آخرت میں چلے گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرمسئلہ کا ایک ہی حکم ہے اور وہ اللہ کے علم میں ہے، اب جس مجتہد کا اجتہاد اس حکم کے مطابق ہوگا وہ مصیب (درستگی کو پہنچنے والا) کہلائے گا اور جس مجتہد کا اجتہاد اس حکم مے مطابق نہ ہوگا وہ مخطی (غلطی کرنے والا) کہلائے گا۔ اس لیے کسی مجتہد کے ماننے والے کا اپنے کو قطعی طور پر صحیح اور دوسرے مجتہد کے قول کو قطعی طور پر غلط کہنا صحیح نہیں اور نہ ہی آدمی کو اس چکر میں پڑنے کی ضرورت ہے، کیوکہ اگر اس کے امام سے خدانخواستہ اجتہادی غلطی ہوبھی گئی ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اس کو ثواب سے محروم نہیں فرمائیں گے، قال في الشامي : أي لا نجزم بأن مذھبنا صواب ألبتة ولا بأن مذھب مخالنا خطأ البتة بناء علی المختار من أن حکم اللّٰہ في کل مسئلة واحد معین وجب طلبہ فمن أصابہ فھوالمصیب ومن لا فہو المخطي (شامي: ۱/۱۳۹، زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند