• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 21676

    عنوان:

    کیا سب شیعہ کافر ہیں؟ (۲) ہمارے گاؤں میں ایک مولانا آتے ہیں، وہ ہر جمعہ کی رات کوتیز آواز سے ذکر کرتے ہیں،سب لوگ اس کا ساتھ دیتے ہی، کیا ایساکرنا ٹھیک ہے؟ میرا خیال ہے کہ وہ بریلوی ہیں، تو کیا بریلوی ہونا بری بات ہے؟ (۳) زیر ناف کہاں سے کہاں تک ہے؟(۴) خدانخواستہ اگر کوئی اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے ہمبستری کرے تو کیا واقعی نکاح ٹوٹ جاتاہے یا کیا ہوتاہے؟

    سوال:

    کیا سب شیعہ کافر ہیں؟ (۲) ہمارے گاؤں میں ایک مولانا آتے ہیں، وہ ہر جمعہ کی رات کوتیز آواز سے ذکر کرتے ہیں،سب لوگ اس کا ساتھ دیتے ہی، کیا ایساکرنا ٹھیک ہے؟ میرا خیال ہے کہ وہ بریلوی ہیں، تو کیا بریلوی ہونا بری بات ہے؟ (۳) زیر ناف کہاں سے کہاں تک ہے؟(۴) خدانخواستہ اگر کوئی اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے ہمبستری کرے تو کیا واقعی نکاح ٹوٹ جاتاہے یا کیا ہوتاہے؟

    جواب نمبر: 21676

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 675=539-5/1431

     

    (۱) سب شیعہ کافر نہیں بلکہ ان کے کافرہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں اور ہرصورت کا حکم جداگانہ ہے۔ اول یہ کہ ان میں سے کسی شخص یا فرقہ کے تعلق یقینی طور پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے، اگرچہ انکار میں تاویل بھی کرتا ہو اور صاف انکار کرنے سے تبری بھی کرتا ہو، مثلاً قرآن مجید کے محرف وناقابل اعتبار ہونے پر اگر کسی شخص کی ایسی عبارت ہے کہ اس سے یقینی طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے، پھر اس کے باوجود اپنی عبارت کو غلط مان کر اس سے رجوع ظاہر نہیں کرتا مگر عقیدہ تحریف قرآن سے تبری کرتا ہے تو اس تبری کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ باتفاق وباجماع کافر و مرتد ہے، اس کے ساتھ کسی قسم کا اسلامی معاملہ رکھنا جائز نہیں نہ اس سے کسی مسلمان کا نکاح جائز ہے اور نہ اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی کما في رد المحتار: نعم لا شک في تکفیر مَن قذف السیدة عائشة أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوہیة في علي أو أن جبریل غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن (شامي مع الدر، کتاب الجہاد باب المرتد مطلب مہم في حکم سبّ الشیخین: ۶/۳۷۸، زکریا) دوم صورت یہ ہے کہ کسی شخص یا فرقہ کے متعلق یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر نہیں ہے، مگر جمہورامت کے خلاف حضرت علی کو افضل الصحابہ اور خلیفہ اول سمجھتا ہے تو ایسا شخص یا فرقہ فاسق وگمراہ ہے مگر کافر و مرتد نہیں، اس کے ساتھ وہ اسلامی معاملات جائز ہیں جو کسی فاسق و گمراہ کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ذبیحہ اس کا حلال ہے اس کے جنازہ پر نماز جائز ہے، لیکن نکاح کے معاملہ میں اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے کیوں کہ فاسق کی معاشرت کے اثرات ونتائج خطرناک ہوتے ہیں، تیسری صورت یہ ہے کہ یقینی طور پر کسی امر کا ثبوت نہ ملے یعنی نہ اس کا یقین ہے کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے اور نہ اس کا کہ منکر نہیں ہے بلکہ ایک مشتبہ حالت ہے ارو اشتباہ اس وجہ سے ہے کہ اس فرقے کے عقائد واقوال ہی مشتبہ ہیں یا اس وجہ سے کہ اس شخص کے متعلق یہ یقین نہیں کہ اس کا تعلق باعتبار مذہب وعقائد کس فرقہ سے ہے، ایسے لوگوں کے متعلق شرعی فیصلہ بھی دشوار ہے اس میں احوط واسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم لگایا جائے اور نہ اسلام کا۔ اول میں تو خود اس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے،پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا یعنی نہ اس سے عقد مناکحت کی اجازت دیں گے نہ اس کی اقتداء کریں گے، اگر تحقیق کی قدرت ہو اس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہو توسکوت کریں گے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں گے۔

    (۲) تیز آواز سے اس طرح ذکر کرنا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے یا کسی نماز پڑھنے والے تلاوت کرنے ولے کو تشویش وخلل لاحق نہ ہو جائز ہے، صرف تیز آواز سے ذکر کرنے کی وجہ سے اس پر بریلوی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ ان کے دوسرے اعمال، عقائد اورخیالات کا علم نہ ہو۔

    (۳) موئے زیرناف میں پیڑو کی ہڈی کی ابتداء سے لے کر اعضاء ثلاثہ، یعنی ذکر، خصیتین ان کے حوالی اور ان کے محاذاة میں رانوں کا وہ حصہ جس کے تلوث کا خطرہ ہے اور دُبر کے بال بھی شامل ہیں ان سب جگہوں پر اگنے والے بالوں کی صفائی ضروری ہے۔

    (۴) اپنی بیوی سے پیچھے کے راستہ سے پیچھے کے راستے ہی میں ہمبستری کرنا بہت گناہ کی بات ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کے پاس پیچھے کے راستہ میں آتا ہے اللہ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتا، لہٰذا پیچھے کے راستہ میں ہرگز ہمبستری نہ کرے البتہ اگر کسی سے یہ گناہ سرزد ہوجائے تو اس کی بیوی سے اس کا نکاح نہیں ٹوٹتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند