• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 62144

    عنوان: موت کے تعلق سے اور قربانی کے تولق سے

    سوال: ا۔ مرنے کے بعد مردے کے پیر قبلہ کی طرف کرتے ہیں۔صحیح طرہقہ اورشرعی حکم کیا ہے ؟ 2۔ قربانی کرنے والے حصے داروں میں سے کو ئی ایک مسجد میں عید کی نماز پڑھ کر قربانی کر تا ہے اور باقی والے بعد میں عید کی نماز ادا کرتے ہیں تو قربا نی ہو جائے گی یا نہیں؟

    جواب نمبر: 62144

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 27-152/N=2/1437-U (۱) جب آدمی کا انتقال ہونے لگے تو اسے دائیں کروٹ پر لٹاکر قبلہ رو کردیا جائے، یا کم از کم چت لٹاکر پیر قبلہ کی طرف اور سر مشرق کی طرف کردیا جائے، اور چہرہ قبلہ کی طرف کرنے کے لیے سر کے نیچی کوئی تکیہ وغیرہ رکھ دی جائے کا في عامة کتب الفقہ والفتاوی اور اگر کیف ما اتفق کی حالت پر انتقال ہوگیا تو انتقال کے بعد اس طرح لٹادیا جائے کہ پیر قبلہ کی طرف اور سر مشرق کی طرف ہوجائے اور سر کے نیچے کوئی چیز رکھ کر سر قبلہ کی طرف کردیا جائے (امداد الاحکام، کتاب الجنائز ۲: ۴۳۴، ۴۳۵، سوال: ۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، فتاوی دارالعلوم دیوبند ۵: ۲۴۲، ۲۴۳، سوال: ۲۷۱۴، ۲۷۱۵، مستفاد: الاختیار لتعلیل المختار ۱: ۳۰۲، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ، بیروت، امداد الفتاوی: ۱: ۷۳۲، سوال : ۶۵۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) اور اگر قبر کی طرح لٹاکر سر شمال کی طرف اور پیر جنوب کی طرف کردیئے جائیں اور چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جائے تو یہ بھی درست ہے۔ (درمختار وشامی ۳: ۸۳، فتاوی رحیمیہ ۷: ۵۶، سوال: ۴۴، مطبوعہ: دارالاشاعت کراچی) البتہ قبر میں سنت یہ ہے کہ مردے کو مکمل طور پر دائیں کروٹ پر لٹایا جائے، صرف اس کا چہرہ قبلہ کی جانب کردینے کو کافی نہ سمجھا جائے۔ (درمختار مع شامی ۳: ۱۴۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند امداد الفتاح ص: ۵۷۰، مطبوعہ: مکتبہ اتحاد دیوبند، امداد الفتاوی: ۱/ ۷۱۲، ۷۱۳، سوال: ۶۴۲، ۶۴۳، احسن الفتاوی ۴: ۲۳۴، ۲۳۵ مطبوعہ: دارالاشاعت کراچی)۔ (۲) اگر شہر میں کسی ایک جگہ عیدالاضحی کی نماز پڑھ لی گئی تو تمام اہل شہر کے لیے قربانی جائز ہوجائے گی، ان لوگوں کے لیے بھی جنھوں نے نماز پڑھ لی اور ان لوگوں کے لیے بھی جنھوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی، پس صورت مسئولہ میں تمام شرکا کی قربانی بلاشبہ درست ہوجائے گی۔ قال في رد المحتار (کتاب الأضحیة: ۹: ۴۶۰): وأول وقتہا بعد الصلاة إن ذبح في مصر أي بعد أسبق صلاة عید اھ وفي الرد: قولہ: ”بعد أسبق صلاة عید“: ولو ضحی بعد ما صلی أہل المسجد ولم یصل أہل الجبانة أجزأہ استحسانا؛ لأنہا صلاة معتبرة حتی لو اکتفوا بہا أجزأتہم، وکذا عکسہ، ہدایہ اھ․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند