• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 59447

    عنوان: ہم جو سنت طریقے سے غسل مردے کو دیتے ہیں اور اس کو پورا غسل چادر کے اندر دیتے ہیں اور استنجاء وغیرہ سب اس چادر میں کراتے ہیں اور آخر میں وہ گیلی چادر ہٹا کر پھر پاک صاف چادر اس کے اوپر ڈال دیتے ہیں تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جب ہم اس کو آخر میں گندی اور گیلی چادر ہٹاکر پھر اس کا جسم نہیں دھوتے اور دوسری پاک صاف ڈال دیتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟

    سوال: میر ا سوال یہ ہے کہ ہم جو سنت طریقے سے غسل مردے کو دیتے ہیں اور اس کو پورا غسل چادر کے اندر دیتے ہیں اور استنجاء وغیرہ سب اس چادر میں کراتے ہیں اور آخر میں وہ گیلی چادر ہٹا کر پھر پاک صاف چادر اس کے اوپر ڈال دیتے ہیں تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جب ہم اس کو آخر میں گندی اور گیلی چادر ہٹاکر پھر اس کا جسم نہیں دھوتے اور دوسری پاک صاف ڈال دیتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟ کیوں کہ وہ تو ناپاک چادر تھی اور گیلی ناپاک کپڑے کو جب تک دھو یا نہ جائے وہ پاک نہیں ہوتا تو مردہ کیسے پاک ہوگا؟

    جواب نمبر: 59447

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 647-694/N=8/1436-U فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر ناپاک کپڑے پر خوب زیادہ پانی ڈال کر بہادیا جائے تو وہ دھوئے اور نچوڑے بغیر پاک ہوجاتا ہے؛ کیونکہ اس طرح کافی مقدار میں پانی ڈالنا اور بہانا کئی بار دھونے اور نچوڑنے کے درجہ میں ہے، صحیح وراجح قول یہی ہے؛ لہٰذا میت کو غسل دیتے وقت اس کے جسم پر جو چادر یا کپڑا ہوتا ہے، اگر وہ میت کے جسم کی حقیقی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہوجائے تو چوں کہ غسل میں میت کے جسم پر کافی مقدار میں پانی ڈالا جاتا ہے؛ اس لیے غسل مکمل ہونے پر میت کا جسم اور چادر دونوں پاک ہوجائیں گے۔ گیلی چادر ہٹانے کے بعد میت کے جسم پر مزید پانی ڈالنے کی ضرورت نہ ہوگی، وقد صرح في شرح المنیة عند قولہ: ”روي عن أبي یوسف“ أن الجنب إذا اتزر في الحمام وصب الماء علی جسدہ ثم علی الإزار یحکم بطہارة الإزار وإن لم یعصر،․․․․ ولاشک أن الغسل بالماء الجاري وما في حکمہ من الغزیر أو الصب الکثیر الذي یذہب بالنجاسة أصلاً ویخلفہ غیر مرارًا بالجریات أقوی من الغسل في الإجانة التي علی خلاف القیاس، ․․․․ ولہذا قال الإمام الحلواني علی قیاس قول أبي یوسف في إزار الحمام: إنہ لو کانت النجاسة دمًا أو بولاً وصب علیہ الماء کفاہ إلخ (شامي ۱: ۵۴۲، ۵۴۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) وأما حکم الصب فإنہ إذا صب الماء علی الثوب النجس إن أکثر الصبّ بحیث یخرج ما أصاب الثوب من الماء وخلفہ غیرہ ثلاثا فقد طہر لأن الجریان بمنزلة التکرار والعصر، والمعتبر غلبة الظن ہو الصحیح إلخ (البحر الرائق ۱: ۴۱۲، ۴۱۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند