عبادات >> احکام میت
سوال نمبر: 59447
جواب نمبر: 59447
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 647-694/N=8/1436-U فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر ناپاک کپڑے پر خوب زیادہ پانی ڈال کر بہادیا جائے تو وہ دھوئے اور نچوڑے بغیر پاک ہوجاتا ہے؛ کیونکہ اس طرح کافی مقدار میں پانی ڈالنا اور بہانا کئی بار دھونے اور نچوڑنے کے درجہ میں ہے، صحیح وراجح قول یہی ہے؛ لہٰذا میت کو غسل دیتے وقت اس کے جسم پر جو چادر یا کپڑا ہوتا ہے، اگر وہ میت کے جسم کی حقیقی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہوجائے تو چوں کہ غسل میں میت کے جسم پر کافی مقدار میں پانی ڈالا جاتا ہے؛ اس لیے غسل مکمل ہونے پر میت کا جسم اور چادر دونوں پاک ہوجائیں گے۔ گیلی چادر ہٹانے کے بعد میت کے جسم پر مزید پانی ڈالنے کی ضرورت نہ ہوگی، وقد صرح في شرح المنیة عند قولہ: ”روي عن أبي یوسف“ أن الجنب إذا اتزر في الحمام وصب الماء علی جسدہ ثم علی الإزار یحکم بطہارة الإزار وإن لم یعصر،․․․․ ولاشک أن الغسل بالماء الجاري وما في حکمہ من الغزیر أو الصب الکثیر الذي یذہب بالنجاسة أصلاً ویخلفہ غیر مرارًا بالجریات أقوی من الغسل في الإجانة التي علی خلاف القیاس، ․․․․ ولہذا قال الإمام الحلواني علی قیاس قول أبي یوسف في إزار الحمام: إنہ لو کانت النجاسة دمًا أو بولاً وصب علیہ الماء کفاہ إلخ (شامي ۱: ۵۴۲، ۵۴۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) وأما حکم الصب فإنہ إذا صب الماء علی الثوب النجس إن أکثر الصبّ بحیث یخرج ما أصاب الثوب من الماء وخلفہ غیرہ ثلاثا فقد طہر لأن الجریان بمنزلة التکرار والعصر، والمعتبر غلبة الظن ہو الصحیح إلخ (البحر الرائق ۱: ۴۱۲، ۴۱۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند