• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 171756

    عنوان: میت کے لیے ختم کرنا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام ذیل مسائل کے بارے میں۔ نوٹ: یہاں پر ایک مفتی صاحب نے پہلا والا جواب ارسال کیا ہے اور دوسرے مفتی صاحب نے دوسرا والا جواب ارسال کیا ہے۔ اب عوام میں تشویش ہے کہ کونسے فتوے پر عمل کیاجائے۔ لہذا علماء کرام نے مشورہ دیا کہ یہ سوال اور جوابات درالعلوم دیوبند کو ارسال کردیں تاکہ وہ فیصلہ کرکے ایک دوٹوک جواب ارسال فرمائیں۔ شکریہ۔ سوال:کیافرماتے ہیں مفتیان عظام وعلماء کرام اس شرعی مسئلہ کے بارے میں کہ جب کسی گھر میں کوئی آدمی مر جائے تو اس کیلئے ختم القرآن کرنا کیسا ہے؟برائے مہربانی مندرجہ ذیل شقوں کا تفصیلی جواب دے کر رہنمائی فرمائیں؛ (1)جب کسی کے ہاں کوئی مرجائے تو وہ لوگ نزدیک مدرسہ جا کر وہاں سے کچھ طلباء کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھر لاتے ہیں، اور ان پر اپنے میت کیلئے ختم کرتا ہے(پاروں کو اپنے مابین تقسیم کرتا ہے) کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ (2)بعض حضرات یہ کرتے ہیں کہ جب وہ طلباء ختم کے لیے جائیں تو وہ وہاں پر کچھ نہیں لیتا اور صرف ذکر واذکار کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟ (3) جب ختم القرآن ختم ہو جائے تو پھر وہ لوگ ان کے ہاں کھانا کھاتے ہیں کیا ان کے لیے یہ کھانا جائز ہے؟ (4)ذکر اذکار کرنے والا شخص یہ کھانا کھاسکتاہے یا نہیں؟وہ ختم میں حصہ نہیں لیتا صرف ذکر کرتا ہے۔ (5) اگر کسی نے یہ کھانا کھایا تو اس کا کیا حکم ہے؟ (6)اور اس کھانے والے کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ (7)بعض علاقوں میں کھجوروں کے گھٹلیوں پر ختم کرتا ہے اور اس پر پہلا کلمہ بڑھتا ہے جہرا، میت کے لیے کیا یہ ختم جائزہے؟ یا نہیں۔ اگر ناجائز ہے تو کیا اس ختم کا ثواب اس میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ۔ جواب اول از مفتی محمد وہاب صاحب منگلور سوات الجواب وبااللہ التوفیق: میت کے پیچھے قرآن پاک کا ختم بطور ایصال ثواب بااجماع اہل سنت والجماعت ثابت اور مشروع ہے خلافا للمعتزلہ ۔ 2: بہتر یہ ہے کہ منشا داعی کے مطابق ختم میں حصہ لے کہ قرآن کے تلاوت سب اذکار سے افضل ہے۔ اور ذکرواذکار بطور ایصال ثواب بھی جائز ہے ۔ 3: چونکہ اہل میت کی جانب سے یہ کھانا دینا بطور ضیافت ہوتا ہے اور یہی معروف ہے لہذا یہ کھانا بہرحال جائز ہے۔ اور بطور اجرت مختلف فیہ ہے علامہ شامی نے ناجائز قرار دیا ہے اور علامہ حدادی ، عالمگیریہ وغیرہ نے جائز قرار دیا ہے۔ المعروف ہوالضیافة دون الاجرة فافہم۔4: ضیافت میں تمام مدعوئین شرکت کرسکتے ہیں بلکہ داعی باہر سے اور لوگ بھی لاسکتے ہیں۔5: بنا بر حدیث وایجابة الدعوة پر عمل کیا اور سنت ادا کیا۔6: حلال کھانے والے کی نماز مقبول اور حرام سود وغیرہ کھانے والے کی نماز غیر مقبول ہوتا ہے۔ 7: کلمہ طیبہ کا ستر ہزار یا ایک لاکھ بار کاختم بطور ایصال ثواب مروی اور مشائخ کا معمول رہاہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ وھوالموفق الجواب صحیح۔ محمدوہاب عفی عنہ گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف سوات 2018۔12۔17 جواب ثانی از مفتی سراج الدین صاحب پنج پیر صوابی الجواب: بعون الملک الوہاب میت کے لیے ایصال ثواب شریعت میں جائز اور ثابت ہیں، لیکن آج کل ایصال ثواب کے لیے خودساختہ طور پر سمیں گڑھ لی گئیں مثلا، دنوں کی تخصیص، اور اس کی اجتماعی مجلسوں کا اہتمام وغیرہ۔ تو ان رسومات اور بدعات کی وجہ سے ایسی مجلسوں سے منع کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ سب التزامات شریعت میں بے اصل اور اکابر اور اسلاف سے ثابت نہیں ہیں ۔ لہذاایسی بدعات اور رسومات سے بچنا چاہیے ، چونکہ مروج قرآن خوانی ایک رسم محض بن کر رہ گئی ہے اگر ایصال ثواب مقصود ہے تو اس کے لیے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اجتماع کی کیا ضرورت ہے دوسرا یہ کہ اگر یہ قرآن خوانی ایصال ثواب کے لیے ہو تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور کھانا کھلانا اجرت میں شمار ہوگا۔ نیز ایصال ثواب کے لیے دعوت بذات خود بدعت اور ناجائز ہے، اور شریعت محمدیہ کسی کی کمی اور زیادتی کی محتاج نہیں اس لیے کہ ہمارا دین کامل اور اکمل ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا)(سورة المائدہ:3:5) اسی طرح فرماتے ہیں(وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا) (سورة الحشر:7:59)اسی طرح (تلک حدود اللہ ومن یتعد حدوداللہ فقد ظلم نفسہ)(سورة الطلاق1:59) اسی طرح ارشاد نبوی ﷺ ہے (من احدث فی امرنا ہذا مالیس فیہ فھو رد)(صحیح البخاری رقم الحدیث 2697) اور اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رویت کرتے ہیں۔قال لاتختصو ا لیلة الجمعة بقیام من بین اللیالی ولاتخصوا یوم الجمعة بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصومھا احدکم)(صحیح مسلم:رقم الحدیث 1144، سنن الترمذی) ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ من اصر علی امر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصة فقد اصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من اصر علی بدعة او منکر۔(مرقاة المفاتیح:26:3) کذا فی السعایہ علی شرح الوقایہ 265:2) علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ اذا ثبت ھذا فالدخول فی عمل علی نیة الالتزام لہ ان کان فی المعتاد بحیث اذا داوم علیہ اورث مللا ینبغی ان یعتقد ان ھذا الالتزام مکروہ ابتداء اذ ھو مود الی امور جمیعھا منھی عنہ:احدھا ان اللہ ورسولہ اھدی فی ھذالادین التسھیل والتیسیر وھذا الملتزم یشبہ من لم یقبل ھدیتہ وذالک یضاھی ردھا علی مھدیھا وھو غیر لائق بالمملوک مع سیدہ، فیکف یلیق بالعبد مع ربہ؟ والثانی: الخوف من الدخول تحت الغلو فی الدین ، فان الغلو ھی البالغة فی الامر ومجاوزة الحد فیہ الی حیز الاسراف(کتاب الاعتصام1؛164) الجواب عن الشقوق بالترتیب (1) کسی مدرسہ سے طلباء لا کر اور ان کے درمیان پارے تقسیم کر کے ختم قرآن کرنا، دور حاضر کی ایک بڑی رسم ہے یہ طریقہ ایصال ثواب کا نبی کریمﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں۔ علامہ شاطبی صاحب رحمہ اللہ نے بہیئت اجتماعی طور قرآن کریم کے تلاوت کو بدعت میں شمار کیا ہے۔ علامہ موصوف لکھتے ہیں۔ ومن البدعالاضافیة لتی تقرب من الحقیقة ان یکون اصل العبادة مشروعا الا انہ تخرج عن اصل شرعیتھا بغیر دلیل توھما انھا باقیة علی اصلھا تحت مقتضی الدلیل وذالک بان یقید اطلاقھا بالرای او یطلق تقییدھا وبالجملة فتخرج عن حدھا الذی حد لھا۔(کتاب الاعتصام:2:309)آگے لکھتے ہیں ومن ذالک قراء ة القرآن بھیئة الاجتماع (الاعتصام) آخر میں لکھتے ہیں :وھذ ا کلہ ان فرضنا اصل العبادة مشروعا فان کان اصلھا غیر مشروع فھی بدعة حقیقیة مرکبة(الاعتصام) علامہ محمد بن شہاب المعروف بابن البزاز الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فالحاصل ان اتخاذالطعام عن قراء ة القرآن لاجل الاکل یکرہ(بزازیہ بہامش الہندیہ:4:81)علامہ ابن عابدین صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قال تاج الشریعة فی شرح الھدایة۔ ان القرآن بالاجرة لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء وقال العینی فی شرح الھدایة ، ویمنع القارء للدنیا والآخذ والمعطی آثمان، فالحاصل ان ما شاع فی زماننا من قراء ة الاجزاء بالاجرة لا یجوز، لان فیہ الامر بالقراء ة واعطاء الثواب للآمر والقراء ة لاجل المال۔ فاذا لم یکن للقارء ثواب لعدم النیة الصحیحة فاین یصل الثواب الی المستاجر ولولا الاجرة ما قرا احد لاحد فی ھذا الزمان بل جعلوا لقرآن العظیم مکسبا ووسیلة الی جمع الدنیا ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔(ردالمختار:9:77 کتاب الاجارة) دوسری جگہ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وفی البزازیة : ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث بعد الاسبوع، ونقل الطعام الی القبر فی المواسم واتخاذ الدعوة للقراء ة القرآن وجمع الصلحاء والقرآء للختم او لقراء ة سورة الانعام او الاخلاص، والحاصل ان اتخاذ الطعام عند قراء ة القرآن لاجل الاکل یکرہ(رد المختار:3:176 کتاب الصلاة) لہذا اس طریقہ سے ایصال ثواب بخشنا درست نہیں، نہ اس طریقہ سے پڑھنے والے کو کچھ ثواب ہوتا ہے اورنہ میت کو ثواب پہنچتا ہے۔ لاغرض یہ ایک بعت ہے جس کا ترک واجب ہے۔ (2) جو لوگ وہاں جاتے ہیں خواہ ان کے ساتھ اس رسم وبدعت میں شریک ہوتے ہیں یا نہیں ان کے ساتھ گناہ میں برابر کے شریک ہیں اس لیے کہ کم ازکم ان سے بدعت کی مجلس کو تقویت پہنچتی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں۔ عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ من تشبہ بقوم فھو منہ(ابوداود) (3) قراة قرآن پر کسی قسم کی اجرت لینا یا دینا قطعی ناجائز اور بدعت ہے اور جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ گناہ گار ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ (ولاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا(سورة البقرة)قال ابوالعالیہ:لاتاخذوا علیہ اجرا(تفسیر ابن کثیر) وقال علیہ السلام : اقرؤو القرآن ولاتاکلو بہ ولاتستکثروا بہ ولاتجفو عنہ ولاتغلو ا فیہ۔(المصنف لابن شیبہ) وقال علیہ السلام: من قرا القرآن ان یتکل بہ الناس جاء یوم القیامة ووجہہ عظم لیس علیہ لحم۔ وقال علیہ السلام: من قرا القرآن فلیسال اللہ بہ فانہ سیجیء اقوام یقرؤون القرآن یسالون بہ الناس۔سنن الترمذی)وقال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہ سیجیء زمان یسئل فیہ باالقرآن فاذا سالوکم فلا تعطوھم۔ نوٹ: فقہاء کرام کے عبارات اوپر گزر گئے۔ (4)(5)(6) : اس طرح کھانا ذکر واذکار کرنے والا کہا جاسکتا ہے اور نہ یہ بدعت کرنے والے، اس طرح کھانا کھانے والا سخت گناہ گار ہوگا ان سے بچنا چاہیے لیکن ان کی نماز ہوجائیگی۔ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: من اصر علی امر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصة فقد اصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من اصر علی بدعة او منکر۔۔(مرقاة المفاتیح:3:26) کذا فی السعایة علی شرح الوقایة۔ نوٹ :اوپر حوالہ جات یہاں بھی ملحوظ ہیں۔ (7)جن علاقوں میں کھجور کے ہڈیوں پر اجتماعی جہرا ذکر اذکار کر کے ان کو ختم کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے ایصال ثواب کرتے ہیں، شریعت میں اس کی کہی ثبوت نہیں۔علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں قال الشارح: زاد فی الجوہرة : وما یفعلہ متصوفة فی زماننا حرام لا یجوز القصد والجلوس الیہ ومن قبلھم لم یفعل کذالک۔(ردالمختار: 9:577) علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ومن البدع الاضافیة التی تقرب من الحقیقیة ان یکون اصل العبادة مشروعا الا انہ تخرج عن اصل شرعیتھا بغیر دلیل توھما انھا باقیة علی اصلھا تحت مقتضی الدلیل وذالک بان یقید اطلاقھا بالراء اویطلق تقییدھا بالجملة فتخرج عن حدھا الذی حد لھا۔کتاب الاعتصام:2:309) آگے لکھتے ہیں: ومن ذالک قراء ة القرآن بھیئة الاجتماع (الاعتصام:2:316) آخر میں لکھتے ہیں: وھذا کلہ ان فرضنا اصل العبادة مشروعا فان کان اصلھا غیر مشروع فھی بدعة حقیقیة مرکبة(کتاب الاعتصام)(احسن الفتاوی:1:361)وکفایة المفتی:9:46) الجواب صحیح واللہ اعلم بالصواب۔ مفتی سراج الدین زید مجدہ(رئیس دارالافتاء دارالقرآن پنج پیر صوابی) حررہ منیب الرحمن

    جواب نمبر: 171756

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1088-134T/B=10/1440

    دونوں مفتیان کرام کے جوابات پڑھے۔ دوسرے مفتی صاحب کاجواب تقریباً ہمارے علماء ومشائخ اہل سنت کے فتاوی کے مطابق ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند