• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 916

    عنوان: چار مہینے جماعت میں نہ لگائے جائیں تو کیا ایمان ناقص رہے گا؟

    سوال:

    (1) میں آپ سے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے تبلیغی بھائی اکثر یہ کہتے ہیں کہ چار مہینے لگاؤ، اگر کسی نے چار مہینے نہ لگائے ہوں تو وہ اس کو کہتے ہیں کہ یہ اگر مرگیا تو ایمان سیکھے بغیر مرے گا۔ کیا کسی کو اس طرح کہنا درست ہے؟ کیا تبلیغی جماعت میں جانا ہر مسلمان پر فرض ہے، فرض کفایہ ہے، واجب ہے یا نفل ہے؟ ایک آدمی پانچ وقت کا نمازی ہے، متقی ہے، روزآنہ درس سنتا ہے، دین کا علم حاصل کرتا رہتا ہے، کتابوں سے یا علماء سے پوچھ پوچھ کر ، اپنے گھر کا واحد کفیل شخص ہے (ہوسکتا ہے اور بھی کمانے والے ہوں) اگر وہ بھی چار مہینہ نہ لگائے تو بھی تبلیغی حضرات یہی کہتے ہیں کہ اگر اس نے چار مہینے نہیں لگائے تو ایمان سیکھے بغیر مرے گا۔ کیا یہ کفریہ بات نہیں ہے؟

     

    (2) آج کے حالات میں ایک آدمی اپنی بیوی کو چھوڑ کر کتنے دنوں تک کے لیے غیر ملک جاسکتا ہے؟ کیا چار یا چھ ماہ سے زیادہ عرصہ باہر رہنا ٹھیک ہے؟اگر نہیں تو تبلیغ والے بھی توایک سال کے لیے لے جاتے ہیں۔

    جواب نمبر: 916

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  1039/هـ = 1025/هـ)

     

    (1) ایمان اور اس کے مقتضیات (نیک اعمال کواختیار کرنا گناہوں سے اجتناب کرنا) کا سیکھنا یعنی بقدر ضرورت دین حاصل کرنا ہرشخص کے ذمہ واجب ہے، اگر کوئی شخص ایسے ماحول و مشاغل میں گھرا ہوا ہے کہ علاوہ جماعت تبلیغ میں نکل کر دین سیکھنے کے اس کو موقعہ ہی میسر نہیں، اگر اس نے وقت فارغ نہ کیا اور اسی حالت میں موت آگئی تو دین سیکھے بغیر موت کا آجانا ظاہر ہے، البتہ جو شخص دیگر ذرائع سے علم حاصل کرتا رہتا ہے اور دین سیکھنے کے دوسرے طرق اختیار کیے ہوئے ہے اس شخص کے متعلق اس قسم کا قول درست نہیں ہے اگرچہ اس قسم کا قول کفریہ بھی نہیں۔

     

    (2) شوہر- شوہر اور بیوی- بیوی کے حالات یکساں نہیں ہوتے اگر معصیت میں ابتلا کااندیشہ نہ ہو اور شوہر غیر ملک میں چار ماہ کے لیے چلاجائے تو گنجائش ہے اس سے زائد میں زوجین کے طبعی و معاشی صحیح حالات لکھ کر معلوم کرنا چاہیے، تبلیغ والے جو ایک سال لگواتے ہیں وہ مذکورہ بالا امور پر آپس میں اچھی طرح غور و خوض اور مشورہ سے لگواتے ہیں اور بعض سال لگانے والوں کو درمیانِ سال وقفہ وقفہ سے گھر بھی بھیجتے رہتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند