• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 69412

    عنوان: دعوت وتبلیغ كا كام فرض عین ہے یا فرض كفایہ؟

    سوال: میں نے سنا ہے کہ مولانا الیاس رحمت اللہ علیہ سے کسی نے یہ پوچھا تا کہ دعوت کا کام فرض ہے ، سنت ہے ، نفل ہے یا واجب ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اگر امت سے فرض چھوٹ رہاہو تو فرض ، واجب چھوٹ رہا ہو تو واجب ، سنت چھوٹ رہی ہو تو سنت ہے ۔ آج ہمارا جو حال ہے ہمیں معلوم ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ان ساری چیزوں کو چھوڑ بیٹھاہے یہ بات اگر مولانا الیاس صاحب نے بھی کہی تو امت کے اس حال کو دیکھتے ہوئے علمائے دین کو اس کے واجب یا فرض ہونے کا فتوی دینا چاہئے ۔ جب کہ آپ کے ایک فتوی میں آئی ڈی (Fatwa ID: 930-930/M=9/1436-U)کے مطابق تبلیغ دین کا کام فرض علی الکفایہ ہے جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو گی اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی۔ قرآن کریم میں اس امت کی تعریف کی وجہ حج کرنے نہیں، روزے رکھنے پر نہیں، نماز پڑھنے پر نہِں بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر آئی ، تم بہترین امت ہو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے نکالے گئے ہو۔ یہاں پر فرض کفایہ سے کیا مراد ہے ؟اگر کام فرض کفایہ ہوگا دین امت میں کیسے پھیلے گا؟ [2]فتوی آئی ڈی Fatwa ID: 1436-14738/N=12/1435-U (اگر گھر میں شوہر کے علاوہ کوئی اورمحرم مرد بیوی بچوں کی دیکھ ریکھ کرنے والا اور ان کی باہری ضروریات پوری کرنے والا نہیں ہے اور بیوی ذہنی مریضہ ہے اور گھر میں جوان بیٹی بھی ہے تو صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی بچوں کو یوں ہی چھوڑکر تبلیغی جماعت میں نکلنا درست نہیں، اسے اپنی بستی میں رہ کر دین سیکھنے اور سکھانے کی محنت میں لگنا چاہیے ، مروجہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی فرض وواجب وغیرہ نہیں، نیز مقصود بالذات بھی نہیں، اصل چیز خود دین دار بننا اور دوسروں کو دین دار بنانے کی کوشش کرنا ہے خواہ کسی طریقہ سے ہو۔یہ فتوی اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ دین میں دعوت کی اتنی اہمیت نہیں جتنی بالخصوص آج کے دور میں ہونی چاہئے تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کی بیویاں نہیں تھیں ؟ کیا ان کے بچے نہیں تھے ؟ کیا ان دل نہیں تھا؟ پھر وہ کیوں یہ سب چھوڑ کر دین کی محنت کے لئے نکلے ، ان کی تو واپسی بھی نہیں ہوئی، جہاں گئے وہیں قبریں بن گئیں، ہم نے اکابرین سے یہی سنا کہ ہمارے لیے صحابہ کی زندگی نمونہ ہے ، اگر صحابہ بھی اس کو فرض کفایہ سمجھ لیتے تو کیا دین ہم تک آج پہنچتا؟ [3]اگر ہر کوئی یہی کہے گا کہ میری بیوی ، میرے بچے ، میرا کاروبار تو پھر میرا دین؟ [4] أَطِیعُو اللَّہ وَأَطِیعُولرَّسُولَ کی تفسیر یہی ہے کہ پہلے اللہ پھر رسول پھر کوئی اور۔ مجھے امید ہے کہ آپ میر ی اوپر کی سطروں کو گستاخی نہ سمجھتے ہوئے مجھے تسلی بخش جواب دیں گے ۔ اور اس کام کو فرض عین قرار دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے اور قیامت تک دارالعلوم دیوبند کو دین کی خدمت کے لیے قبول کرے اور آپ بزرگوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سرپر رہے ۔ آمین ۔

    جواب نمبر: 69412

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1067-1161/M=12/1437 دعوت وتبلیغ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے آج کے دور میں بھی اس کی ضرورت مسلّم ہے اور ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فریضہ انجام دینا چاہئے اور اسے فرض کفایہ سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہئے، فرض عین قرار دینے کے لیے دلیل قطعی کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں۔ ہم نے سابقہ فتوے میں فرض کفایہ والی بات اپنی طرف سے نہیں لکھی ہے بلکہ فتاوی محمودیہ سے نقل کی ہے حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی  سے ایک استفتاء کیا گیا کہ: تبلیغ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟ تو حضرت  نے جواباً تحریر فرمایا کہ: ”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“ ۔ (فتاوی محمودیہ: ۵/۳۲، ط: میرٹھ) آپ نے حضرت مولانا الیاس  کے متعلق جو بات نقل کی ہے اس کاحوالہ کیا ہے؟ کہاں ایسا لکھا ہے؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند