• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 68845

    عنوان: بعض تبلیغی حضرات یہ بات بیان فرماتے ہیں کہ مدرسہ میں پڑھانا دین کا کام نہیں ہے ؟

    سوال: بعض تبلیغی حضرات تبلیغی بیانات میں یہ بات بیان فرماتے ہیں کہ مدرسہ میں پڑہانا دین کا کام نہیں ہے ،اس لیے کہ علماء پڑہانے کی اجرت لیتے ہیں جس کی اجرت لی جائے وہ دین نہیں، اسی لیئے علماء کو ایک سال لگانے کو بولتے ہیں،اور یہ بیان کرنے والے "" مولانا سعد صاحب نے کسی مدرسہ میں بیان کیا ہوگا"" اسکا حوالہ دیتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کا علماء کرام کے متعلق اس طرح بیانات دینا گمراہی کو دعوت دینا نہیں ہیں؟ اگر کوئی عالم دین امامت کر رہا ہو یا مدرسہ میں خدمت انجام دے رہاہویا خانقاہی نسبت سے کسی شیخ سے تعلق رکہتا ہو اور اپنی اصلاح کررہا ہو تو کیا ایسے عالم دین کے لئے تبلیغی جماعت میں ایک سال جاناضروری ہے ؟ امید ہے کہ آپ قرآن و سنت کے مطابق جواب عنایت فرمائیں گے ۔

    جواب نمبر: 68845

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1023-1012/Sd=1/1438

    تبلیغی جماعت میں اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مدرسہ میں پڑھانا دین کا کام نہیں ہے؛ اس لیے کہ علماء پڑھانے کی اجرت لیتے ہیں، تو یہ جہالت اور غلو کی بات ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیں ہے، یہ کہنے والے کا اپنا غلط نظریہ ہے؛ اِس لئے کہ اجر وثواب کا تعلق تنخواہ لینے یا نہ لینے پر نہیں ہے؛ بلکہ نیت پر ہے، اگر کوئی شخص دین کی خدمت کی خاطر اِمامت وتدریس کا کام انجام دے اور اَسباب کے طور پر تنخواہ لے تو اُس کے اَجر وثواب میں ہرگز کمی نہیں آئے گی۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری خدمات بجالانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے وظائف مقرر فرمائے تھے اور خلفاء راشدین نے بھی عمالِ سلطنت کے لئے وظائف جاری فرمائے، حتیٰ کہ خود خلفاء اسلام کے لئے بیت المال سے وظائف جاری کئے گئے، کیا کوئی مسلمان یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ حضرات دینی خدمات پر وظیفہ لینے کی وجہ سے اَجر وثواب سے محروم ہوگئے؟موجودہ تبلیغی دعوتی کام اگرچہ مفید ہے؛ لیکن اِس کی بنیاد پر تعلیم، تدریس اور امامت وغیرہ کی تحقیر ہرگز روا نہیں۔ عالم دین کے لیے خاص تبلیغی جماعت میں سال لگانا ضروری نہیں ہے، اصل چیز اپنی اصلاح کرانا ہے اور استطاعت کے بقدر دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنا ہے، اگر کوئی عالم دین امامت کر رہا ہے، یا مدرسہ میں خدمت انجام دے رہا ہے یا خانقاہی نسبت کسی شیخ سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی اصلاح کر رہا ہے اور وسعت کے بقدر دوسروں کی بھی اصلاح کی کوشش کرتا رہتا ہے، تو وہ راہ راست پر ہے۔ عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إنما الأعمال بالنیات۔ (صحیح البخاري ۱/۲ رقم: ۱) عن ابن الساعدي قال: استعملني عمر علی الصدقة فلما فرغت منہا وأدیتہا إلیہ أمر لي بعمالةٍ، فقلت: إنما عملت للّٰہ وأجري علی اللّٰہ، قال: خذ ما أعطیتک فإني قد عملت علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فعملني، فقلت مثل قولک، فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أعطیت شیئًا من غیر أں تسألہ فکل وتصدق۔ (سنن أبي داوٴد / باب في الاستعفاف ۱/۲۳۳) قال القاري: فیہ جواز أخذ العوض عن بیت المال علی العمل العام وإن کان فرضًا کالقضاء والحسبة والتدریس؛ بل یجب علی الإمام کفایة ہٰوٴلاء، ومن في معناہ في مال بیت المال۔ (بذل المجہود ۶/۵۰۱ رقم: ۱۶۴۷، مرقاة المفاتیح / باب من لا تحل لہ مسئلة ومن تحل لہ ۴/۱۸۳) عن الوضین بن العطاء قال: کان بالمدینة ثلاثة معلمین یعلمون الصبیان، فکان عمر بن الخطاب یرزق کل رجل منہم خمسة عشر کل شہر۔ (المصنف لابن أبي شیبة ۱۱/۲۷ رقم: ۲۱۲۲۸)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند