عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ
سوال نمبر: 60270
جواب نمبر: 6027001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 930-930/M=9/1436-U تبلیغ دین کا کام فرض علی الکفایہ ہے جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی، اور جس میں جیسی اہلیت ہوگی اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سورہٴ آل عمران آیت نمبر 104 میں ارشاد خداوندی ہے: ولتکن منکم أمة یدعون إلی الخیر الآیة ترجمہ: ”اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں“۔ اور حدیث میں ہے: بلّغوا عنّي ولو آیة یعنی دین کی ایک بات بھی جانتے ہو اور اسے دوسرے تک پہنچاسکتے ہو تو پہنچادو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرا سوال یہ ہے کہ ہم
کتابوں کے ذریعہ، میڈیا کے ذریعہ، مالی امداد کے ذریعہ دعوت کا کام کریں یہ کافی
نہیں۔کیا تبلیغی جماعت میں نکلنا ضروری ہے؟ سعودی شیخ عبدالعزیز بن باز نے ایک
سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ تبلیغ والوں کے ساتھ وہی نکلے جس کو دین کا صحیح علم ہو
،کیوں کہ یہ لوگ جاہل ہوتے ہیں او ران کو عقیدے کا صحیح علم نہیں ہوتا۔ یاد رہے میں
جماعت سے تعلق رکھتا ہوں لیکن ہم کو ایسے بہت اشکالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو
بہت رنج ہوتا ہے کہ ہماری لا علمی کی وجہ سے اس کام کو لوگ سمجھ نہیں سکتے؟
ہم ہر مہینہ تبلیغی جماعت کے سلسلہ میں (قریہ اور گاؤں) میں جاتے ہیں اور خصوصی طور پر رمضان میں ضرور جاتے ہیں اس لیے کہ مسجدوں میں بغیر گشت اور محنت کے ایک بڑا مجمع مسلمانوں کا مسجد کو آتا ہے ہم وہاں جاکر روزہ وغیرہ نماز کی ترغیب دیتے ہیں اس لیے کہ اکثر دیہاتوں میں لوگ روزہ رمضان کیا چیز ہے جانتے ہی نہیں۔ اورہم وہاں یہ بات چلاتے ہیں کہ بھائی ہم رمضان کے مسلمان نہیں کہ صرف رمضان میں نماز پڑھیں اس لیے غیر رمضان میں بھی نماز کی پابندی کیجئے۔ مگر ہمارے شہر بنگلور میں ایک عالم دین جو دارالعلوم دیوبند کے فارغ ہیں رمضان میں جماعت میں جانے سے شدت کے ساتھ روکتے ہیں اورکہتے ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن ایک جگہ پرسننا سنت ہے اس لیے رمضان میں جماعتوں میں نہ جایا جائے۔ تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کی بات صحیح ہے کہ رمضان میں تبلیغی جماعتوں میں نہ جایا جائے؟ برائے کرم جلد از جلد جواب ارسال فرمائیں۔
3506 مناظرشادی کے کچھ عرصے بعد حالات کو دیکھتے ہویے میں نے اور میری بیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم گھر میں ٹی وی نہیں رکھیں گے۔ اس بات پر ہم دونوں کا اتفاق ہوگیا ۔ الحمد للہ، ٹی وی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں کافی سکون بھی آیا ہے ۔ ٹی وی کے بارے میں آپ کی ویب سائٹ پر جو اورسوالوں کے جواب آپ نے دیا ہے وہ بلا شبہ درست ہے اور صحیح ہے۔ اور یہ فرق ہم نے محسوس کیا جب ٹی وی کو گھر سے نکال دیا، مگر شادی کے دوسال ہونے کو ہیں اور الحمد للہ ، اللہ کی رحمت یعنی بیٹی گھر میں آئی ہے۔ اب بیوی کہتی ہے کہ میرا وقت نہیں گذرتا اور گھر میں دوبارہ ٹی وی لائیں۔ واللہ اعلم، کیا بات ہوئی کہ ان کا ذہن پھر اسی طرف چلا گیا۔ میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ دوبارہ سوچیں، ٹی وی کا دوبارہ گھر میں آنا صحیح نہیں ہے۔ دین کو جاننے کے لیے میں نے بہت سارے بیانات اور دینی کتابیں بھی لاکر رکھی ہے۔ مگر بیگم صاحبہ بضد ہیں کہ ٹی وی لا کر دیں۔ اس وجہ سے چار پانچ دفعہ بہت بحث ہو چکی، مگر بات نہیں رہی ہے۔آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ مجھ سے پوچھے تو میں کسی صورت میں ٹی وی نہ لاؤں؟ آپ شریعت کو سامنے رکھ کر رائے فرمائیں۔
2420 مناظرمیرے
نفس نے دماغ ، دل اور جسم کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے جب بھی کوئی گناہ کی چیز
سامنے آتی ہے تو میں اسے کر ڈالتا ہوں اس کے علاوہ دنیا کے کاموں میں بھی دماغ کا
جسم پر زور ختم ہوگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے کہ میرا دماغ تو سو گیا ہے تمام احساس
مرگئے ہیں۔ کیا بطور علاج تبلیغی جماعت میں جاکر اپنے نفس پر سختی ڈالنے کا انتظام
کروں،یا پھر کیا کوئی اور طریقہ اپنا نا پڑے گا؟ برائے مہربانی جلد اطلاع کریں
تاکہ میں اس پر عمل کرنے کی حالت میں رہ سکوں؟
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عورت اگر تبلیغ
کے لیے جانا چاہے تو اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے، کیا اگر محرم نہ ہو تو وہ
تبلیغ نہیں کرسکتی؟