عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ
سوال نمبر: 46837
جواب نمبر: 46837
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1048-789/D=10/1434 یہ تو حدیث کا مفہوم ہے، إن اللہ یبعث لہذہ الأمة علی رأس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا (أبوداوٴد) کسی کام پر سو سال گذرنا مراد نہیں ھے بلکہ ہر سو سال پر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو بھیجتے ہیں جو دین میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو زائل کرتا ہے یا اسلام کے رخ زیبا پر جو بدنما داغ آجاتے ہیں، انھیں صاف کرتا ہے۔ عام لوگوں کو تو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی مجدد ہے البتہ خواص کو کچھ قرائن اور علامات کے ذریعہ اندازہ لگتا ہے، قطعیت کے ساتھ وہ بھی کوئی بات نہیں کہہ سکتے، ہاں بسا اوقات قرائن ایسے ظاہر اور صاف ہوتے ہیں جس سے مجدد کے مجدد ہونے کا ظن غالب ہوجاتا ہے۔ ہرشخص کو اپنے اعمال کی اصلاح اور انھیں قرآن وسنت کے مطابق بنانے کی فکر کرنا لازم ہے، جن لوگوں کے اندر یہ فکر ہوگی انھیں ہی مجدد کی ذات سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا کہ جن امور کے اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی اس نے اصلاح کرلی اور جس کو خود اپنے اصلاح کی فکر اس وقت نہیں ہے اسے مجدد کے آنے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند