India
سوال # 157632
Published on: Jan 21, 2018
جواب # 157632
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:478-402/B=4/1439
تصوف شریعت سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے، شریعت کے احکام میں مثلاً نماز، روزہ، زکاة اور حج میں اور دیگر اعمال میں جان پیدا کرنے کا نام تصوف ہے۔ تصوف میں سب سے اہم چار چیزوں پر زور دیا جاتا ہے مثلاً ”ریا“ اور دکھاوے کے لیے کوئی عمل نہ کیا جائے کیونکہ اس سے کسی عمل کا ثواب نہیں ملتا ہے۔ ”إنما الأعمال بالنیات“ تمام اعمال کے اجر وثواب کا مدار نیتوں پر ہے، اگر اللہ کے لیے عمل کیا ہے تو وہ ثواب کا مستحق ہے اور دکھاوے کے لیے کوئی عمل کیا ہے کہ وہ ثواب سے محروم رہے گا۔ اور مثلاً کسی مسلمان سے ”حسد اور کینہ“ نہ رکھا جائے، اس سے تمام اعمال کے اجر وثواب سے محروم رہے گا، اس کی نماز، روزہ، حج، دعا تہجد، چلہ کوئی عبادت قبول نہ ہوگی۔ اور مثلاً ”حرص ولالچ“: کہ جب تک آدمی حرص ولالچ دنیا کا اپنے دل سے نہیں نکالے گا، وہ حرام کمائی سے اور حرام کاموں سے نہیں بچ سکتا۔ ”حُبُّ الدنیا رأس کل خطیئة“ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی چیز ہے۔ (حدیث) اور چوتھی چیز ”تکبر“ ہے، تکبر کی وجہ سے سارے اعمال بیکار ہوجائیں گے۔ ہم اللہ کے بندے ہیں، بندہ بندگی کرنے سے بنتا ہے۔ بڑائی جتانے والا اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑا اپنے آپ کو سمجھتا ہے، اللہ تو قصور کرنے والے کو معاف کردیتا ہے اور آدمی معاف نہیں کرتا ہے؛ بلکہ حسد اور کینہ دل میں رکھے رہتا ہے، بڑائی میں اپنے آپ کو اللہ کی صف میں کھڑا کرنا، یہ عظیم الشان گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی گردنیں دنیا میں مروڑ دیتا ہے، یعنی انھیں ذلیل کرتا ہے اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔
غرض اپنی عبادات کو دُرست کرنا، اپنے اخلاق کو درست کرنا، اپنے معاملات کو درست کرنا یہی اصل میں دین ہے جس کو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام لے کر اس دنیا میں آئے پھر انھوں نے اپنا جانشین علماء کو بنایا، علماء حق جو دین کی باتیں قرآن وحدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں، وہی دین ہے، اسی میں سے کچھ حصہ اولیائے کرام نے بھی لیا، یہ سب دین کے کام ہیں، صرف مروجہ دعوت وتبلیغ کو دینِ انبیاء سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
كيا دين كی تبليغ كيلے ويديو بنانا شرعا جائز هے؟ اس بر بعض اعتراض كرتے ہيں۔ جواب سے نوازیں۔
تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
میری والدہ مجھ کو جماعت میں نہیں جانے دیتیں۔ میں اتوار کا بیان سننے جاتا ہوں۔ الحمد للہ میں آٹھ سال سے جماعت کے لوگوں سے مربوط ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل میں سوچتاہوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں جملہ فرائض اداکرتاہوں ، علاوہ ازیں مجھے مسلمان بھائیوں کو نماز وغیرہ کے لیے کہتے رہنا چاہیے۔ میں نے مولانا سعد صاحب سے سناکہ تھوڑا ساوقت اللہ کی راہ میں نکلنا بہت زیادہ ثواب ہے بہ نسبت گھر میں عبادت کے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر اسلام کے متعلق کوئی بات معلوم ہوتو اسے دوسروں کو بتاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدیہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اگر میں اپنی والدہ کی اجازت کے بغیر نکلوں توکیا ہوگا؟
میں آپ سے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے تبلیغی بھائی اکثر یہ کہتے ہیں کہ چار مہینے لگاؤ، اگر کسی نے چار مہینے نہ لگائے ہوں تو وہ اس کو کہتے ہیں کہ یہ اگر مرگیا تو ایمان سیکھے بغیر مرے گا۔ کیا کسی کو اس طرح کہنا درست ہے؟
خواتین کو تبلیغ میں جانا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ تبلیغی جماعت کے حضرات چار مہینہ اور ایک سال کے لیے تبلیغ میں جاتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کیوں کہ اس سے وہ اپنی بیویوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔
عورت کے لیے منع ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر مسجد میں نماز پڑھے۔ میں نے ایک عالم سے سنا ہے کہ قرآن میں سات سو پچاس بار براہ راست یا بالواسطہ نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ جب نماز جیسے فریضہ کے متعلق عورتوں کو یہ حکم ہے کہ وہ گھر میں ادا کریں تو پھر کیوں تبلیغی علماء وغیرہ آج کی عورتوں کو تبلیغی دوروں میں بھیجنے کے سلسلے میں نرمی برتتے ہیں۔۔۔؟
کیا عورتیں اپنے محرم (جیسے باپ، بھائی، شوہر) کے ساتھ تبلیغ کو جاسکتی ہیں؟ جماعت تبلیغ ایسا ہی کررہی ہے۔
تبلیغی ولوں میں فرقہ بندی کی بوباس آنے لگی ہے، جیسے وہ باربار کہتے ہیں ?اپنے ساتھی ، اپنے ساتھی? ۔ کوئی معاملہ ہویارویت نکالنی ہو تو اپنے ساتھی ہونے کو اجاگر کرتے ہیں، تعاون یا مدد کو چھوڑکوکر زکاةکے معاملے میں اپنے ساتھی دیکھے جاتے ہیں ، نیز آجکل علماء بیزاری ہی نہیں بلکہ علماء دشمنی بھی ان میں عام ہوتی جارہی ہے جس کی مثالیں آئے دن پیش آتی رہتی ہے، کیا یہ رویہ عصبیت ، جاہلیت نہیں ہے؟ کوئی عالم بغرض اصلاح کچھ کہے تو اسے مطعون کیا جاتاہے ، تبلیغ مخالف قرار دیاجاتاہے۔ مسجد کے امام ہوں اور متولی تبلیغی ہوں تو اسے برخواست کردیا جاتاہے، مسائل کے سلسلے میں کہا جاتاہے کہ دعوت کے کام میں جڑے مفتی سے دریافت کرنا چاہئے،۔ براہ کرم، اس سلسلے میں ضروری رہنمائی فرمائیں