India
سوال # 156114
Published on: Dec 9, 2017
جواب # 156114
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:144-6168/sd=3/1439
جس طرح اسلام میں امر با لمعروف ، یعنی : اچھی باتوں کی تلقین کرنے کی اہمیت ہے ، اسی طرح برائیوں اور گناہ کے کاموں سے روکنے اور حسب استطاعت اُن پر نکیر کا حکم ہے ، نہی عن المنکر ایک مستقل فریضہ ہے ، یہ بات غلط ہے کہ صرف امر بالمعروف کافی ہے ، اسی سے منکرات ختم ہوجاتے ہیں، حسب حیثیت اور استطاعت ہر شخص پر نہی عن المنکر کی بھی ذمہ داری ہے ؛ البتہ علماء نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط اور اُس کے اصول بتائے ہیں ،تفصیل کے لیے دیکھیے :معارف القرآن:سورہ آل عمران ، آیت : ۱۰۵۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
كيا دين كی تبليغ كيلے ويديو بنانا شرعا جائز هے؟ اس بر بعض اعتراض كرتے ہيں۔ جواب سے نوازیں۔
تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
میری والدہ مجھ کو جماعت میں نہیں جانے دیتیں۔ میں اتوار کا بیان سننے جاتا ہوں۔ الحمد للہ میں آٹھ سال سے جماعت کے لوگوں سے مربوط ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل میں سوچتاہوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں جملہ فرائض اداکرتاہوں ، علاوہ ازیں مجھے مسلمان بھائیوں کو نماز وغیرہ کے لیے کہتے رہنا چاہیے۔ میں نے مولانا سعد صاحب سے سناکہ تھوڑا ساوقت اللہ کی راہ میں نکلنا بہت زیادہ ثواب ہے بہ نسبت گھر میں عبادت کے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر اسلام کے متعلق کوئی بات معلوم ہوتو اسے دوسروں کو بتاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدیہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اگر میں اپنی والدہ کی اجازت کے بغیر نکلوں توکیا ہوگا؟
میں آپ سے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے تبلیغی بھائی اکثر یہ کہتے ہیں کہ چار مہینے لگاؤ، اگر کسی نے چار مہینے نہ لگائے ہوں تو وہ اس کو کہتے ہیں کہ یہ اگر مرگیا تو ایمان سیکھے بغیر مرے گا۔ کیا کسی کو اس طرح کہنا درست ہے؟
خواتین کو تبلیغ میں جانا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ تبلیغی جماعت کے حضرات چار مہینہ اور ایک سال کے لیے تبلیغ میں جاتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کیوں کہ اس سے وہ اپنی بیویوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔
عورت کے لیے منع ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر مسجد میں نماز پڑھے۔ میں نے ایک عالم سے سنا ہے کہ قرآن میں سات سو پچاس بار براہ راست یا بالواسطہ نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ جب نماز جیسے فریضہ کے متعلق عورتوں کو یہ حکم ہے کہ وہ گھر میں ادا کریں تو پھر کیوں تبلیغی علماء وغیرہ آج کی عورتوں کو تبلیغی دوروں میں بھیجنے کے سلسلے میں نرمی برتتے ہیں۔۔۔؟
کیا عورتیں اپنے محرم (جیسے باپ، بھائی، شوہر) کے ساتھ تبلیغ کو جاسکتی ہیں؟ جماعت تبلیغ ایسا ہی کررہی ہے۔
تبلیغی ولوں میں فرقہ بندی کی بوباس آنے لگی ہے، جیسے وہ باربار کہتے ہیں ?اپنے ساتھی ، اپنے ساتھی? ۔ کوئی معاملہ ہویارویت نکالنی ہو تو اپنے ساتھی ہونے کو اجاگر کرتے ہیں، تعاون یا مدد کو چھوڑکوکر زکاةکے معاملے میں اپنے ساتھی دیکھے جاتے ہیں ، نیز آجکل علماء بیزاری ہی نہیں بلکہ علماء دشمنی بھی ان میں عام ہوتی جارہی ہے جس کی مثالیں آئے دن پیش آتی رہتی ہے، کیا یہ رویہ عصبیت ، جاہلیت نہیں ہے؟ کوئی عالم بغرض اصلاح کچھ کہے تو اسے مطعون کیا جاتاہے ، تبلیغ مخالف قرار دیاجاتاہے۔ مسجد کے امام ہوں اور متولی تبلیغی ہوں تو اسے برخواست کردیا جاتاہے، مسائل کے سلسلے میں کہا جاتاہے کہ دعوت کے کام میں جڑے مفتی سے دریافت کرنا چاہئے،۔ براہ کرم، اس سلسلے میں ضروری رہنمائی فرمائیں