• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 150025

    عنوان: تشکیل ہوتی ہے ایک سال کی، زید جانا چاہتا ہے لیکن بیوی منع کرتی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے دور كا حوالہ دیتی ہے كہ چار مہینے سے زائد بیوی سے دور رہنا ممنوع ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں زید ایک مسجد میں امامت کرتاہے اور ساتھ ہی مکتب پڑھا تاہے اپنے گھر سے باہر رہتا ہے ، والدین سے دور نکاح ہوچکاہے ،بیو ی وا لدین کے ساتھ رہتی ہے ، تشکیل ہوتی ہے ایک سال کی، زید جانا چاہتا ہے لیکن بیوی منع کرتی ہے اور حوالہ حضرت عمر رضي الله عنه کے دورخلافت کا دے تی ہے کہ کوئی بھی مجاہد جو شادی شدہ تھا چار مہینے سے زیادہ باہر نہیں رہ سکتا تھا چار ماہ گذر نے پراس کو گھر ضرور جانا پڑتا تھا تو برائے مہربانی مجھے پورا واقعہ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ کا حل بتا کر شکریہ کا مؤقع عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 150025

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 648-726/N=7/1438

    (۱): حضرت عمررضي الله عنه  کا یہ واقعہ اس طرح ہے کہ آپ  رضي الله عنه  ایک مرتبہ رات میں گشت فرمارہے تھے، آپرضي الله عنه  کا گذر ایک مکان کے قریب سے ہوا تو اس مکان سے کچھ آواز آرہی تھی، آپ نے سوچا کہ شاید مکان میں کوئی پریشان ہے؛ اس لیے آپرضي الله عنه  نے دیوار سے گان لگادیے تو کوئی خاتون شوہر کے فراق میں شدت شہوت میں کچھ اشعار پڑھ رہی تھی، آپ  رضي الله عنه نے اس مکان پر نشان لگادیا، صبح تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا ہے کہ اس کا شوہر ایک لمبی مدت سے جہاد میں گیا ہوا ہے۔ حضرت عمررضي الله عنه  نے اپنی صاحبزادی: حضرت حفصہرضي الله عنه  سے دریافت فرمایا : ایک عورت شوہر کے بغیر کب تک صبر کرسکتی ہے؟ حضرت حفصہرضي الله عنه  نے فرمایا : چار مہینہ ۔ تو حضرت عمررضي الله عنه نے مختلف لشکروں کے امراء کو یہ فرمان جاری فرمایا کہ کوئی شادی شدہ لشکری اپنی اہلیہ سے چار ماہ سے زیادہ دور نہ رہے، یعنی: چار مہینہ کے اندر اس کی واپسی کا نظم کیا جائے۔ اور بعض روایات میں ہے: عورتوں نے بتایا کہ عورت شوہر کے بغیر دو مہینہ صبر کرسکتی ہے، تیسرے مہینہ میں صبر کم ہوجاتا اور چوتھے مہینہ میں صبر ناپید ہوجاتا ہے۔ اور بعض روایات میں پانچ مہینہ اور بعض میں چھ مہینہ کا ذکر آیا ہے۔ اور بعض روایات میں ہے: حضرت حفصہرضي الله عنه  نے فرمایا کہ تعجب ہے کہ آپ جیسا آدمی مجھ سے ایسا سوال کررہا ہے؟ حضرت عمررضي الله عنه  نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کی خیر خواہی مد نظر نہ ہوتی تو میں تجھ سے یہ بات دریافت نہ کرتا۔ اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمررضي الله عنه  نے اس خاتون کے ساتھ ایک عورت کو رکھ دیا اور اس کے شوہر کو جہاد سے واپس بلایا۔

    إن عمر رضی اللہ تعالی عنہ لما سمع فی اللیل امرأة تقول: فو اللہ لولا اللہ تخشی عواقبہ، لزحزح من ھذا السریر جوانبہ ، فسأل عنھا بنتہ حفصة کم تصبر المرأة عن الرجل؟ فقالت: أربعة أشھر، فأمر أمراء الأجناد أن لا یتخلف المتزوج عن أھلہ أکثر منھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح ، باب القسم ۴:۳۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وانظر المغني لابن قدامة (۷: ۳۰۴، ط:مکتبة القاھرة)والمھذب للشیرازي (۲: ۱۰۶، ۱۰۷، ط: عیسی الحلبي) أیضا۔

    (۲): زید جب مسجد کی امامت اور مکتب کی تعلیم سے جڑا ہوا ہے تو یہ دونوں بھی دین کی عظیم خدمات ہیں، انھیں معمولی نہیں سمجھنا چاہیے؛ لہٰذا وہ انہیں خدمات میں لگا رہے اور بہتر سے بہتر طریقے پر اور کامل اخلاص کے ساتھ مفوضہ خدمات انجام دینے کی کوشش کرے، پیسہ ہرگز مقصود نہ ہو، بنیادی مقصد خدمت دین ہو؛ البتہ مقامی طور پر جماعت کی محنت سے جڑے، مشورے اور تعلیم میں شرکت کرے اور لوگوں کو دین کی دعوت دے۔ اور حسب سہولت وانتظام مہینہ، ڈیڑھ مہینہ میں یا اس سے کم وبیش مدت میں وطن جاکر بیوی سے ملاقات کرآیا کرے تاکہ اس کا بھی حق ادا ہوتا رہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند