• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 63750

    عنوان: اگر دانت ٹيڑھے ہوں تو ان كو سیدھا كرانا كیا تغییر لخلق اللہ ہے ؟

    سوال: جیسا کہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے تو میرا یہ سوال ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دانت ٹیڑھا آجائے تو کیا وہ اسے سیدھا کرواسکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 63750

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 351-331/N=4/1437 ابو جعفر طبری اور دیگر بعض علما نے فرمایا کہ ٹیڑھے یا لمبے دانت کو سیدھا اور درست کرنا یا کرانا تغییر لخلق اللہ میں داخل ہے، لیکن راجح یہ ہے کہ انسان کے اعضا یا جسم میں اگر غیر معتاد طور پر کوئی نئی چیز پیداہوگئی، تو اسے ٹھیک اور درست کرنا یا کرانا تغییر لخلق اللہمیں داخل نہیں اور جائزہے خواہ اسے باقی رکھنے میں کوئی ضرر ہو یا نہ ہو، جیسے: زائد انگلی کاٹنا، لمبے دانتوں کو برابر کرنا وغیرہ؛ کیوں یہ ازالہ عیب کی شکل ہے، البتہ اس کے لیے کوئی ایسا ہی طریقہ اختیارکیا جائے، جس میں ہلاکت یا کسی بڑے نقصان کا اندیشہ نہ ہو، اور آج کل طب جدید میں زائد انگلی کاٹنے، لمبے دانتوں کو گھس کر برابر ومعتدل کرنے یا ٹیڑھے دانتوں کو سیدھا کرنے کے غیر مضر اور کام یاب علاج پائے جاتے ہیں؛ اس لیے ٹیڑھے دانت یا دانتوں کو سیدھا کروانا جائز ہے، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، ”المغیرات خلق اللہ“ : ……، قال أبو جعفر الطبري: في ھذا الحدیث دلیل علی أنہ لا یجوز تغییر شییٴ مما خلق اللہ المرأة علیہ بزیادة أو نقص التماساًللتحسین لزوج أو غیرہ کما لو کان لھا سن زائدة فأزالتھا أو أسنان طوال فقطعت أطرافھا۔ قال عیاض: ویأتي علی ماذکرہ أن من خلق لہ أصبع زائدة أو عضو زائد لا یجوز لہ قطعہ ولا نزعہ؛ لأنہ من تغییر خلق اللہ إلا أن تکون ھذہ الزوائد موٴلمة، فیتضرر بھا فلا بأس بنزعھا عند أبي جعفر، قلت: قول أبي جعفر عندي غیر موجہ؛ فإن الظاھر أن المراد بتغییر خلق اللہ أن ما خلق اللہ سبحانہ وتعالی حیوانا علی صورتہ المعتادة لا یغیر فیہ، لا أن ما خلق علی خلاف العادة مثلاً کاللحیة للنساء أو العضو الزائد فلیس تغییرہ تغییرا لخلق اللہ (بذل المجہود، کتاب الترجل، باب في صلة الشعر ۵۴، ۵۵، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت) ، إذا أراد الرجل أن یقطع أصبعا زائدة أو شیئا آخر، قال نصیر رحمہ اللہ تعالی: إن کان الغالب علی من قطع مثل ذلک الھلاک فإنہ لا یفعل، وإن کان الغالب ھو النجاة فھو في سعة من ذلک، رجل أو امرأة طع الأصبع الزائدة من ولدہ، قال بعضھم: لا یضمن ولھما ولایة المعالجة، وھو المختار (فتاوی عالمگیری قدیم۵: ۳۶۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، بحوالہ فتاوی ظہیریہ) ، من لہ سلعة زائدة یرید قطعھا إن کان الغالب الھلاک فلا یفعل وإلا فلا بأس بہ کذا في خزانة المفتین (حوالہ بالا)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند