• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 61353

    عنوان: عورتوں کے جدید لباسی مسائل

    سوال: میں اپنی ماں بہنوں کو جب بھی یہ بتاتا ہوں کہ لیگنگ (عورتوں کے جسم سے چپکا شلوار ) حرام ہے تو وہ نہیں مانتیں ہیں۔ اور مجھ کو بڑا دکھ ہوتا ہے ۔ برائے مہربانی آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس مسئلہ کا واضح جواب دیں کہ کیا دور جدید میں جدید عورتوں کے لباس میں بہت سے ایسے لباس ہیں جو باریک ہوتے ہیں۔ اور ایک لعنت لیگنگ کی پیدا ہوئی ہے ۔ کیا یہ حرام نہیں؟ کیونکہ میں ۷۰ فیصد مسلمان عورتوں کو اس بات کا اقرار کرتے پایا ہے کہ یہ حرام نہیں!! لہزا یہ مسئلہ عام ہونا چاہئے اور ان غافل عورتوں تک اس کا حکم پہنچنا چاہئے ۔آپ سے درج بالا موضوع کے بارے حکم دریافت ہے ۔جزاک اللہ

    جواب نمبر: 61353

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1438-1452/L=1/1437-U شریعت نے عورت کے لباس کے سلسلہ میں عورت کے لیے کچھ حدود مقرر کیے ہیں جن کی رعایت بہرحال عورتوں پر ضروری ہے، حدد یہ ہیں: (۱) لباس اتنا چھوٹا، چست یا باریک نہ ہو کہ اس کے پوشیدہ اعضاء جن کا چھپانا واجب ہے ظاہر ہوجائیں۔ (۲) لباس میں کفار، فساق یا فیشن پرست عورتوں کی مشابہت نہ ہو۔ (۳) مردانہ نہ ہو کہ مردوں کی مشابہت لازم آئے۔ (۴) فخر وریاء اور نمائش وتکلف کے طور پر نہ پہنا جائے۔ پتہ چلا کہ عورت کے لیے ایسا لباس پہننا جو اتنا چست ہو کہ جس سے اعضاء نمایاں طور پر معلوم ہوتے ہوں ناجائز ہے، ایسا لباس پہننا جو اتنا چست ہو کہ جس سے اعضاء نمایاں طور پر معلوم ہوتے ہوں ناجائز ہے، ایسا لباس شوہر کے علاوہ محارم کے سامنے پہننا بھی جائز نہیں چہ جائے کہ غیرمحرم کے سامنے اس کو پہنا جائے۔ حدیث شریف میں ایسی عورتوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے: صنفان من أہل النار: قومٌ ․․․ ونساء کاسیات عاریات․․․ لایدخلن الجنة ولا یجدون ریحہا․․ إلخ․ (صحیح مسلم: باب النساء الکاسیات العاریات․․․ الخ ۲/۲۰۵) وفی حاشیتہ: وقیل تستر بعض بدنہا وتکشف بعضہ إظہارًا لجاملہا ونحوہ وقیل معناہ تلبس ثوبًا رقیقًا یصف لون بدنہا․ یعنی دو قسمیں جہنمی ہیں: ایک وہ لوگ․․․ دوسرے وہ عورتیں جو کپڑا پہنے ہوئے ہوں گی اور ننگی بھی ہوں گی․․․ یہ سب جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی اور نہ اس کی خوشبو کو پاسکیں گی إلخ․ یہ وعید شیدید ان عورتوں کے لیے ہے جو زینت کی وجہ سے بدن کے کچھ اعضاء کو کھولے ہوئے ہوں گی یا اتنا باریک لباس پہنے ہوئے ہوں گی جس سے ان کے بدن کی رنگت جھلک رہی ہوگی۔ وقال في تکملة فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورة الرجل والمرأة، لا تقرہ الشریعة الإسلامیة مہما کان جمیلاً․․․ وکذلک اللباس الرقیق أواللاصق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة حصة من الجسم الذي یجب سترہ فہو في حکم ما سبق في الحرمة وعدم الجواز (۴/۸۸)․ وفي أحکام القرآن: ولباسہا وإن کان ملتزقًا ببدنہا أو رقیقا فالنظر من ورائہا کالنظر إلی بدنہا والنظر إلی العورة لا یجوز إلا للضرورة․ بزازیة علی ہامش الہندیة: ۶/۳۷۰) قلت: وقد عمت بہ البلوی في بلادنا من لبس الثیاب الملتزقة ببدنہا والرقیقة وہی لا تجوز عند المحارم أیضًا غیر الزوج فکیف بالأجانب والناس عنہ غافلون․ (أحکام القرآن: ۳/۳۸۳)․ للعلامة مفتی شفیع رحمہ اللہ․ جو عورتیں اس کو جائز سمجھتی ہیں، ان کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند