• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 156650

    عنوان: بال پر بَن لگانا

    سوال: حضرت مفتی صاحب! میرا ایک سوال ہے کہ کیا عورت سر کے بال لپیٹ کر بن ٹائپ بنالیتی ہیں، اور ایک بن آتا ہے مارکیٹ میں وہ پہن لیتی ہیں، کیا دونوں کی نماز میں کوئی کراہیت ہوگی؟ اور پہننا یا بال ایسے بنا لینا کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 156650

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:262-216/N=3/1439

    (۱، ۲): عورت اگر ضرورت پر بالوں کو سنبھالنے کے لیے گدّی کے پاس بالوں کو لپیٹ کر ان کا جوڑا باندھ لے یا بالوں کو لپیٹ کر ان کے اوپر بن ٹائپ کی کوئی چیز لگالے تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں اور اس طرح جوڑا باندھ کر یا بالوں میں بن وغیرہ لگاکر نماز پڑھنے میں بھی کوئی کراہت نہیں (امداد الاحکام، ۱: ۵۵۷، سوال:۵، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، احسن الفتاوی، ۱۰: ۳۱۸- ۳۲۰، مطبوعہ: الحجاز پبلشرز کراچی اور ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں، ص : ۷۷، ۷۸، مطبوعہ: مکتبہ حجاز دیوبند)؛ البتہ عورت جب گھر سے باہر کہیں جائے تو لوگوں کے لیے کشش اور جاذبیت کی کوئی شکل اختیار نہ کرے؛ تاکہ اجنبی مردوں کے لیے فتنہ کا باعث نہ بنے۔

    قولہ:”والعمل علی ھذا عند أھل العلم کرھوا أن یصلي الرجل وھو معقوص شعرہ“:قال العراقي: وھو مختص بالرجال دون النساء؛ لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة، فإذا نقضتہ ربما استرسل وتعذر سترہ فتبطل صلاتھا، وأیضاً فیہ مشقة علیھا في نقضہ للصلاة، وقد رخص لھن صلی اللہ علیہ وسلم في أن لا ینقض ضفائرھن فی الغسل مع الحاجة إلی بل جمیع الشعر(تحفة الأحوذي، أبواب الصلاة باب کراھیة کف الشعر فی الصلاة۲:۳۹۰،ط: دار الفکر للطباعة والنشر والتوزیع)، والکراھة مختصة بالرجال دون النساء لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة فإذا نقضتہ استرسل وربما تعذر سترہ فیوٴدي إلی بطلان صلاتھا (المنھل العذب المورود(کتاب الصلاة باب الرجل یصلي عاقصا شعرہ۵:۳۷ط موٴسسة التاریخ العربي بیروت لبنان)، وفي نیل الأوطار عن العراقي: وھو مختص بالرجال دون النساء ؛ لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة فإذا نقضتہ ربما استرسل وتعذر سترہ فتبطل صلاتھا (۲: ۲۳۵)، قلت- القائل ھو العلامة ظفر أحمد العثماني-: وقول العراقي لا تأباہ قواعدنا بل ھي توٴیدہ فإن شعر النساء عورة عندنا أیضاً (إمداد الأحکام، ۱: ۵۵۷، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند