• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 153358

    عنوان: مردوں کے لیے سر زیادہ بال رکھنا بہتر ہے یا چھوٹے بال رکھنا بہتر ہے ؟

    سوال: مردوں کے لیے سر زیادہ بال رکھنا بہتر ہے یا چھوٹے بال رکھنا بہتر ہے ؟

    جواب نمبر: 153358

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1191-1155/N=11/1438

    احادیث مبارکہ میں حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کے متعلق جو تفصیلات آئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بال رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، ؛ البتہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کانوں کے درمیان تک، کبھی کانوں تک، کبھی کانوں کی لو تک، کبھی کاندھوں تک یا کاندھوں کے قریب رہتے تھے ، یعنی: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال مبارک ترشواتے تو وہ کم سے کم کانوں کے درمیان تک ہوتے اور جب بڑھتے توکاندھوں تک یا کاندھوں کے قریب پہنچ جاتے تھے؛ اس لیے بال رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے ؛ البتہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بال رکھے تو ان کا اکرام بھی کرے، یعنی: کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے تاکہ ہر وقت بال پراگندہ اور بکھرے ہوئے نہ رہیں۔ اور خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنگھی اور تیل کا اہتمام فرماتے تھے (شمائل ترمذی) ۔

    اور اگر کوئی شخص بالوں کو ٹھیک ودرست رکھنے کا اہتمام نہیں کرسکتا یا کسی عذر کی وجہ سے بڑے بال نہیں رکھ سکتا تو وہ چھوٹے بال رکھ سکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی کراہت نہیں ہے ؛ کیوں کہ بالوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سنن عادیہ میں سے ہے؛ البتہ انگریزی طرز پر فیشنی بال رکھنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے؛ کیوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔

    والسنة نوعان: سنة الھدی وترکھا یوجب إساء ة وکراھیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوھا، وسنة الزوائد وترکھا لا یوجب ذلک کسیر النبي صلی اللہ علیہ وسلم في لباسہ وقیامہ وقعودہ (رد المحتار)، وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲:۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني،ص:۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ”من تشبہ بقوم“أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸:۲۲۲،ط:دار الکتب العلمیة بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند