• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 69262

    عنوان: قسطوں کو فوری اددائگی کے لئے دباوٴ ڈالنے کے غرض سے کیا خریدار سے ایساوعدہ یا قسم لیا جائے کہ وہ ادائگی میں ناکام ہونے کی شکل میں تاوان کے طور پر کچھ رقم ادا کرے گا؟

    سوال: کیا فرماتے علماء دین مفتیان شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : زید ٹریڈینگ کمپنی (ZTC) ایک تجارتی کمپنی ہے جو سرمایہ کاروں سے عقد مضاربہ کے تحت روپیہ لیکر یا اپنی رقم سے عقد مرابحہ یعنی اس بیع کے ذریعہ جس میں سامان کی قیمت اورمتعین اضافی نفع کی صراحت کے ساتھ خریداروں کو سامان فروخت کریگی پھر ZTC اس پوری قیمت خردار سے قسطوار وصول کریگی اور اسمیں جو نفع ہوگا اس کو سرمایہ کاروں کوعقد مضاربہ کے مطابق طے شدہ شرح فیصدی کے حساب سے تقسیم کرے گی۔ جس کی مزید تفصیل حسب ذیل ہے: (الف) ZTCکے پاس ان اشیاء یاچیزیں پہلے ہی سے موجود ہوگا جس کو اپنے گاہکوں کو لاگت پراضافی نفع کی مقدار کی صراحت کرکے نقد یا ادھار بیچ کر اس کی قیمت رقم کی شکل میں قسطوار وصول کرے گی۔واضح رہے کہ اس سامان کی نقد اور ادھار قیمت الگ الگ ہوگی اور ادھار قیمت نقد کے مقابلہ میں زیادہ ہوگی ، پھر خریدار کو اختیار ہوگا کہ وہ شروع عقد ہی میں نقد خریدے یا ادھار ، تو جس صورت کو وہ اختیار کریگا وہی قیمت ہی متعین ہوگی اورنقد یا ادھار خرید کر قمیت کی ادائگی میں جلدی یا تاخیر ہونے پر کوئی روپیہ کمی یااضافہ نہیں کیا جائگا۔ (ب) کسی شخص کو کوئی ذاتی استعمال یا تجارتی سامان مثلا مکان ،خام مال ، گاڑی وغیرہ خریدنی ہے لیکن اس کے پاس فی الحال اس کی کل رقم نہ ہونے کی وجہ سے ZTC کے پاس آتا ہے تو یہ کمپنی اس شخص کے مطلوبہ چیز کو بازار سے خریدکراپنی ملکیت میں لینے کے بعد عقد مرابحہ کے تحت ایک الگ عقد کے ذریعہ پھران چیزوں کو اس شخص کے پاس یکمشت یا فیصدی کے حساب سے نفع کا اضافہ کر کے بیچے گی پھران کی قیمت کی رقم ZTC اس خریدار سے قسطوا ر وصول کریگی۔ لہذا ZTC کے کاروبار کی مذکورہ تفصیل کے بعد کچھ سوالات حسب ذیل ہیں: (1) کیا ZTC کا مذکورہ کاروباری صورت شرعا درست ہے؟ اگر اس میں کوئی قابل اعتراض پہلو ہو تو اسے واضح کرکے یہ بھی تحریر فرمادیں کہ اس کی جائز متبادل شکل کیا ہوسکتی ہے؟یا کوئی ضروری ترمیم کیا ہونی چاہئے؟ (2) شکل نمبر(ب) میں اگرZTC خودمطلوبہ چیز کو خریدنے کے بجائے اسی خریدارکو ایک الگ عقد وکالہ کے تحت خریدنے کا اپنا وکیل بنا دے اور کمپنی ہی کی رقم سے اس کی قیمت ادا کرے پھر اس چیزکو ZTC اس شخص کو عقد مرابحہ کے ذریعہ فروخت کردے جس کی قیمت وہ قسطوار ادا کریگا تو اسکا کیا حکم ہے؟ اگر درست ہے تو کیا وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوگا ؟ پھر جب ZTC اس کو فروخت کریگا تو اس شخص کے اپنے لے شرعاقبضے یعنی ملکیت و ضمان میں آنے کی کیا صورت ہوگی؟ (3) نیز شکل نمبر (ب)میںZTC مطلوبہ چیز کو خریدتے وقت سہولت ، ٹیکس بچانا وغیرہ کے پیش نظراگر تمام کاغذی کارروائی مثلا بل بنا نا یا رجسٹریشن وغیرہ اگر اس شخص کے نام کرے تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟ (4) ZTC کی خریدی ہوئی چیزوں پرآئے ہوئے کن کن خرچوں کو اصل قیمت کے ساتھ جوڑ کر پھر اس پراضافی متعین نفع کی صراحت کے ساتھ عقد مرابحہ جائزہے؟مثلا ZTC ان چیزوں پر حکومتی ٹیکس، نقل و حمل کا خرچہ اصل قیمت کے ساتھ جوڑ کراور پھراس پر متعین اضافی نفع جوڑ کر عقد مرابحہ کے ساتھ فروخت کرے تو کیا حکم ہے؟ (5) مرابحہ کی جو شکل اوپر ذکر کی گئی نکات کے ساتھ کیا شریعت کے مطابق درست ہے جبکہ ہم درجہ ذیل قواعد و ضوابط بھی اس شکل میں شامل ہیں: # سوال کے تحت اشیاء کی حقیقی اور ٹھوس قیمت اور کیفیت وضاحت کے ساتھ ان کا عقد مرابحہ درج ہوگا اور وہ حلال مقصد ہی کے لئے استعمال ہوگااور عقد مرابحة کے وقت وہ چیزیں بازار میں موجود ہونگے۔ #سوال کے تحت اشیاء کی حقیقی قیمت شروع ہی میں واضح طور پر درج ہوگا۔ # ZTC کسی خریدار کو وہ سامان عقد مرابحہ کے تحت فروخت کرنے سے پہلے اس کا مالک و قابض ہوگا۔ # ZTC ان اشیاء کو فروخت کرنے سے پہلے حسی یا معنوی طور پر کل اختیاری مالک ہوگا ۔ کل اختیاری مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ZTC نے اگر چہ حسی طور پر ان سامان کو اپنی ملکیت میں نہیں لی ہے لیکن اس کو دستاویز و ثبوت کے ذریعہ ان پر مکمل اختیار حاصل ہے اس طور پر کہ وہ سامان گدام نیں الگ کیا ہوا ہے کہ جب چاہئے ZTC ان کوگدام سے اٹھا کر لا سکتی ہے۔نیز ان سامان کے تمام حقوق ، واجبات اور کسی بھی وجہ سے ان سے متعلق تمام خطرات اور تباہی کی مکمل ذمہ داری ZTC پر ہی ہے۔ # عقدمرابحہ فریقین کے درمیان ایک ہی مجلس میں متفقہ ایجاب و قبول کے ساتھ اور ایک ہی قیمت پر (نقدی یاادھار) منعقد ہوگا ۔ پھر عقد منعقد ہوتے ہی مال کی مکمل ملکیت اور اس سے متعلق تمام خطرات ZTC خریدنے والے کے ضمان میں منتقل کر دے گی۔ #عقد مرابحہ میں ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں خریدار کے ساتھ مستقبل کے قسطون کے ادائگی کے ایام و تاریخ واضح طور پر بیان کر دیا جائگا نیز ZTC اور خریداد کے بینچ ادائگی کے طریقہ کار اور مقام کی بھی وضاحت ہوگی۔ # ZTC مارکیٹ سے یقینی طور پر اس سیلر سے سامان خریدیگا جو کہ آئندہZTC سے وہ سامان خریدنے والے (یعنی خریدار)کے علاوہ ہوگا تاکہ (جس سے خریدا اسی کو زیادہ قیمت میں بینچے کی وجہ سے) بیع االاناء لازم نہ آئے۔ (6)قسطوں کو فوری اددائگی کے لئے دباوٴ ڈالنے کے غرض سے کیا خریدار سے ایساوعدہ یا قسم لیا جائے کہ وہ ادائگی میں ناکام ہونے کی شکل میں تاوان کے طور پر کچھ رقم ادا کریگا، چاہئے یہ رقم کی مقداریکمشت متعین ہو یاادائگی کی رقم کی سالانہ فیصدی کے اعتبار سے ہو۔تاکہ اس سے خریدار اپنے اوپر خود عائد کردہ جرمانہ کی شکل میں عطیہ لازم کرنا، اس کو ادائگی میں ناکامی سے روکنے کا باعث ہوگا، تویہ کیا شرعاً جائز ہے؟ صورت مذکورہ میں فروخت کنندہ ZTC خریدار سے اس طرح کی رقم وصول کرکے اسے اپنے آمدنی میں شامل کرنے کے بجائے ایک الگ اکاونٹ میں جمع کریگا جس کو وقتاً فوقتاً خیراتی اور دینی ضرورتوں میں اس رقم کو استعمال کرے گی تو ایسا کرنا کیسا ہے؟البتہ اگر خریدار کی طرف سے وقت پر ادائگی میں ناکامی اس کی غربت یا اس کی وسعت سے باہر کسی وجوہات کی وجہ سے ہو تو ZTC ایسی صورٹ حال میں یقینی طور پر کوئی بھی جرمانہ کی رقم وصول نہیں کریگی۔ مذکورہ جرمانہ عائد کے جواز کی صورت میں جرمانہ عاید کرنے سے پہلے رعایتی مہلت کی مدت کیا ہونی چاہئے؟ پھر اس طرح کی قسم ، نذر اور وعدہ کیا صرف اخلاقی اور دینی فریضہ ہے یا یہ کہ اس کو عدالتوں کے ذریعہ بھی قابل نفاذ بنایا جاسکتاہے؟ (7)کیاZTC خریدار کے لئے ایسی شرط لگا سکتی ہے کہ اگر وہ کسی ایک بھی قسط کووقت پر ادا نہیں کرتا تو مابقیہ قسطوں کی رقم کویکمشت فوری ادا کرنا ضروری ہونگے ۔ (8)کیا ایسا ممکن ہے کہ اشیاء کی قیمت کی ادائگی جس طرح ZTC اور خریدار کے درمیان طئے ہے، اسی کے مطابق قسطوں میں وقت پر وصولیابی کو یقینی بنانے کے لئے خریدار سے کوئی کفیل کی ضمانت یا خریدار سے کوئی رہن کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ تو کیا ZTC اس طرح کی کوئی ضمانت کا دعوی ایک ناکام خریدار سے کرسکتی ہے؟ اور اس رہن یا کفیل سے خریدار کی ناکامی کی صورت میں اپنا حق وصول کرنے سے پہلے کیا خریدار کو اس کی اطلاع دینا ضروری ہے؟ اور اگر ضروری ہے تو کتنی مدت پہلے ان کو اطلاع ہونی چاہئے؟ (9)کیا ایسا جائز ہے کہ خریدار یکطرفہ وعدہ کرے کہ ZTC مارکیٹ سے کوئی سامان خریدنے اور اس کے مالک ہونے کے بعد اس سے وہ سامان خرید لے گا؟کیا اس طرح کے وعدہ کو پورا کرنا شرعاً صرف ایک اخلاقی فریضہ ہے یا واجب بھی ہے؟ اور قانونی طور پر اس کے اس وعد ے پرکارروائی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟کہ قانونی طور پر اس کو اس بات کا مکلف بنایا جائگا کہ یاتو وہ سامان خریدے یا اس کے اس وعدہ کی وجہ سے ZTC کو جو حقیقی نقصان اور خرچے ہوے ہیں وہ ادا کرے؟ واضح رہے کہ نقصان کی یہ تلافی ZTC کی طرف سے کوئی جرمانہ نہیں بلکہ حقیقی معنی میں اس وعدہ پر سامان خریدنے میں ZTC کو جو مالی نقصان ہوا اس کو وصول کرنا ہے کیوں کہ ظاہر بات ہے جب ZTC نے اس کے وعدہ پر یہ سامان خریدا ہے تو اس کو مزدور اور نقل و حمل وغیرہ کے تعلق اس میں ضرور خرچہ آیا ہوگا۔ ZTC خریدنے کے وعدہ کرنے والے سے اسی نقصان کی تلافی چاہتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ZTC اور خریدنے والے کے درمیان مذکورہ خریدنے کا وعدہ کوئی عقد مرابحہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ ZTC سامان مارکیٹ سے خریدنے کے بعد اور اسے اپنی ملکیت میں لینے کے بعد ہی الگ سے ایجاب و قبول کے ذریعہ ہی سے خریدار کے ساتھ عقد مرابحہ کرے گی۔ (10) ZTC کے لئئے ان ساما ن کو خرید کر عقد مرابحہ کے ساتھ بیچ نے سے پہلے کم سے کم کتنے وقت کے لئے اپنی ملکیت میں رکھنا ضروری ہے؟ اگرZTC مارکیٹ سے جس سے سامان خریدکر اگے مرابحةً خریدنے والے کو وہ سامان پہنچادے اور وہ خریدار سامان مل جانے کی تصدیق کر دے تو کیا یہ کافی ہوگا کہ اس کے بعد اس سے عقد مرابحہ کرلے ؟ یا ZTC کا کوئی ملازم یاوکیل کا اس سامان کو دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے بعد ہی عقد مرابحہ درست ہوگا؟ (11)فی الحال ہندوستان میں اسلامی انشورنس سے رائج تکافل کا نظام موجود نہ ہونے کی صورت میں کیا ZTC خریدار سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ خریدے ہوئے سامان کے قسطوں کی ادائگی مکمل ہونے تک اس سامان کا موجودہ رائج انشورنس کرالے تاکہ اس بیچ کسی حادثہ یا نقصان کی صورت میں اس کو انشورنس کمپنی کی طرف سے کچھ معاوضہ ملے۔تاکہ ZTC کو باقی رقم اداکرنے میں دقت نہ ہو۔ (12)اگر خریدار مابقیہ متعین قسطوں کو مقررہ وقت سے پہلے ہی ادا کردے تو کیا ZTC اس سامان کی طئے شدہ قیمت میں کچھ چھوٹ یا ڈسکاونٹ دے سکتی ہے؟ واضح رہے کہ یہ چھوٹ دینا یا نہ دینا ZTC کا اپنا پورا اختیار اور حق ہے اور یہ پہلے سے عقد مرابحہ کی شرط کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ ہی خریدار کواس کا مطالبہ کاکوئی حق ہوگا۔ (13)کیا ZTC کے لئے جائز ہے کہ عقد مرابحہ میں سامان کے لاگت پر شرح نفع کی تعیین ایسے غیر شرعی مالیاتی ادارے جیسے( RBI) ریزرو بینک آف انڈیا ،(SBI) اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ICICI BANK) ای سی ای سی ای بینک کے قرض پر جو شرح سود ہے اسی کو اپنا معیار بنائے؟(مثلا کسی سال میں سودی بینک کا قرض پر سود کی شرح ۱۰ فیصدی ہے یعنی اگر کوئی ۱۰۰۰۰ ہزار روپئے قرض لیتا ہے تو سالانہ۱۰۰۰۰+۱۰۰۰= ۱۱۰۰۰ روپیہ اداکرنا ہوگا۔، چنانچہ ZTC عقد مرابحہ میں اگر کسی چیز کی لاگت ۱۰۰۰۰ روپیہ ہے تو اس پر بھی سالانہ ۱۰ فیصدی کے حساب سے نفع جوڑکر ۱۱۰۰۰ روپئے میں ۱۲ قسطوں میں فروخت کرتا ہے )کیا ZTC کا شرح نفع کی تعیین کے لئے مذکورہ معیار اپناناشرعا درست ہوگا ؟ جبکہ وہ شرعی جواز کے ساتھ ساتھ موجودہ دیگر سودی مالیاتی اداروں کے مقابلہ میں مارکیٹ میں آنا چاہتی ہے اور چونکہ کہ مارکیٹ میں فی الحال کوئی شرعی معیار نہیں ہے اس لئے ZTC کو مارکیٹ میں جو موجوہ معیارہے اس کواپنانے پر مجبورہے۔ (14)کیا یہ جائز ہے کہZTC سے سامان خریدنے کے وعدہ کرنے والے(خریدار ) سے اس کے وعدہ پورا کرنے یعنی سامان خریدنے پر امادہ کرنے کے غرض سے اس خریدار سے ایک قابل تلافی ضمانت لی جائے تاکہ خریدار اپنے وعدہ میں مخلص اور پکا ہو۔ اور اگر اس خریدار کے وعدہ خلافی کی صورت پرZTC نے جو حقیقی نقصان اورخرچے اس سامان کو مارکیٹ سے خریدنے میں اٹھائے جیسا کہ نقل و حمل وغیرہ اس کی تلا فی کر سکے۔ پھر حقیقی نقصان اور خرچے اگر اس قابل تلافی ضمانت کی رقم کی قیمت سے کم ہو تو زائد رقم واپس کر دی جائگی اور اگر کم ہو تو اس خریدار سے مزید مطالبہ کیا جائگا ۔ اور اگر خریدنے کے وعدہ کرنے والا اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اس سامان کو خرید لیتا ہے ZTCتب اس قابل تلافی ضمانت کوپورا کے پورا واپس کر دے گی۔تو کیا یہ شرعاً درست ہے؟ (15)ٹیکس بچانے اور حکومتی قانون سے ہم آہنگی کے خاطر کیا ایسا کرنا درست ہوگا کہ ZTC مارکیٹ میں سیلر سے جو بھی چیزیں مثلا گاڑی وغیرہ خرید کر اپنی ملکیت میں لیتے وقت اس کاجو قانونی طور پر ضروری رجسٹریشن (اندراج) ZTC سے خریدنے کے وعدہ کرنے والے (خریدار)کے نام سے کرائے تاکہ ZTC کو اس خریدار کے نام اس چیزکو دوبارہ رجشٹریشن کرانے کے ٹیکس اور خرچہ نہ آئے۔ تو کیا یہ درست ہے؟

    جواب نمبر: 69262

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 903-896/SN=10/1437 (۱) اس کا جواب آئندہ جزئیات کے ضمن میں ملاحظہ کریں۔ (۲) مرابحہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کمپنی خود یا اپنے وکیل (جو گاہک کے علاوہ ہو) کے ذریعے سامان خرید کر اولا اپنے قبضہ میں لائے، ا س کے بعد گاہک کے ہاتھ فروخت کرے، آپ نے جو صورت درج کی ہے، اس کی صرف مجبوری کی شکل میں گنجائش دی گئی ہے (یعنی جہاں کسی وجہ سے مذکورہ بالا صورت قابلِ عمل نہ ہو) ایسی صورت میں یہ خریدار بہ حیثیت وکیل اولا کمپنی کی طرف سے قبضہ کرے گا اور یہ قبضہٴ امانت ہوگا، اس کے بعد جب کمپنی سے وہ خود ادھار خرید لے اور معاملہ مکمل ہوجائے تو اس وقت اس پر خریدار کا مالکانہ قبضہ ہوگا اور اس کارسک اس کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ (فقہ البیوع: ۲/۶۵۳، ط: دارالمعارف، نیز دیکھیں: اسلام اور جدید معاشی مسائل) (۳) مذکور فی السوال مجبوری کی بنا پر اس کی گنجائش تو ہے؛ لیکن بہتر ہے کہ اولا کمپنی کے نام ہی کاغذات بنائے جائیں، اس کے بعد خریدار کے نام منتقل کیاجائے؛ تاکہ دونوں معاملے بالکل ممتاز رہیں، نیز کوئی نزاعی صورت نہ بنے؛ اس لیے کہ گاہک کی طرف سے خریداری کاوعدہ کے باوجود بہر حال یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس کا انکار کردے، اور ظاہر ہے کہ اس وقت نزاع پیش آسکتا ہے، نیز یہ خلافِ واقعہ بھی ہے۔ (۴) نقل و حمل کے اخراجات، کسٹم ڈیوٹی، حکومتی ٹیکس اور دیگر واقعی اخراجات جوڑ کر اس پر متعینہ نفع شامل کرکے قیمت متعین کی جاسکتی ہے۔ ویضم البائع إلی رأس المال أجر القصار والصبغ والطراز والفتل وحمل الطعام وسوق الغنم وأجرة الغسل والخیاطة وکسوتہ وأجرة السمسار المشروطة في العقد (تنویر الابصار مع الدر المختار ۷/۳۵۳، ط:زکریا) نیز دیکھیں: فقہ البیوع (۲/۶۴۱) (۵) یہ تمام شرطیں صحیح ہیں، ان میں بظاہر کوئی خلاف شرع امر نہیں ہے؛ لیکن اوپر یہ بات لکھی جا چکی ہے کہ نمبر (۲) میں آپ نے جو شکل درج کی ہے وہ صرف مجبوری میں ہے، عام حالات میں اس پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ (۶) اگر چہ بعض معاصر مفتیان نے اس کی گنجائش دی ہے؛ لیکن بہت سے مفتیان کو اس پر بجا طور پر اشکال ہے؛ اس لیے یہ طریقہ نہ اپنایا جائے؛ بلکہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے کوئی دوسری جائز متبادل تلاش کی جائے۔ (۷) کمپنی یہ شرط عائد کرسکتی ہے کہ اگر خریدار کسی بھی قسط کو بروقت ادائیگی میں ناکام رہا تو باقی قسطیں فوری طور پر واجب الادا ہوجائیں گی۔ وکون الأجل حقا للمشتري في البیع الموٴجل والمقسط مشروط بأن یلتزم بوفاء الأقساط في مواعیدہا، فیجوز الاشتراط في عقد البیع بالتقسیط أن المشتري إن لم یوف قسطا في موعدہ فإن الأقساط کلہا تصیر حالة واجبة الأداء فورا، قد صرح بہ الفقہاء الحنفیة فجاء في خلاصة الفتاوی: ولو قال کلما دخل نجم ولم یوٴد فالمال حال صح ویصیر المال حالا (فقہ البیوع ۱/۵۴۱) (۸) قسطوں کی وصولیابی کو یقینی بنانے کے لیے کمپنی خریدار سے کفیل کی ضمانت یا رہن کا مطالبہ کرسکتی ہے؛ لہذا اگر خریدار قسط ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے یا عاجز یا ناکام ہو جائے اور ادھار کی مدت بھی ختم ہو جائے تو کمپنی کے لیے جائز ہے کہ مناسب قیمت میں مال مرہون فروخت کرکے اپنی واجب الوصول رقم لے لے؛ لیکن اگر مال مرہون کی قیمت کچھ زیادہ ہوتو زیادہ مقدار خریدار کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔ درمختار مع الشامی میں ہے: باع عبدا علی أن یرہن المشتری بالثمن شیئا بعینہ أو یعطي کفیلا کذلک صح (درمختار) وقال الشامي: لأن الثمن الذي بہ رہن أوثق مما لارہن بہ فصار الرہن صفة للثمن وہو وصف مرغوب فیہ فلہ الخیار بفواتہ (درمختار مع الشامی ۱۰/۱۱۰) اسی طرح فقہ البیوع میں ہے: الأجل في البیع الموٴجل حق للمشتري فلایجوز للبائع مطالبة الثمن قبل حلول الأجل ولا یجوز لہ حبس المبیع لاستیفاء الثمن؛ ولکن یجوز لہ أن یطالب المشتري بتقدیم کفالة أو رہن (۲/۱۱۵۷) (۹) کمپنی اس طرح کا وعدہ لے سکتی ہے، ایسی صورت میں اس پر اس کو پورا کرنا شرعا واجب ہوگا، اگر وہ بلا وجہ پورا نہیں کرتا تو اس کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے، نیز قانونی طور پر اس بات کا مکلف بھی بنایا جاسکتا ہے کہ وہ یا تو وہ سامان خرید لے یا اس وعدہ کی وجہ سے کمپنی کو جو یقینی مالی نقصان اور خرچے ہوئے ہیں وہ ادا کرے۔ ․․․․․․․ أثر الوعد علی أن الواعد یجب علیہ أن یفي بوعدہ وإلا فإنہ یجبر الخسران الحقیقی الذی أصاب الموعود لہ بسبب الإخلاف (فقہ البیوع: ۲/۶۵۲) نیز دیکھیں: اسلام اور جدید معاشی مسائل (۵/۱۰۱) (۱۰) قبضہ میں آجانا کافی ہے، اس کے بعد بلا کسی تاخیر کے خریدار کے ہاتھ فروخت کردینا شرعا جائز ہے، نیز قبضہ کے بعد صرف پہنچا دینا کافی ہے، باقاعدہ دیکھنا ضروری نہیں۔ (۱۱) جائز نہیں۔ (۱۲) جی ہاں! صورت مسئولہ میں چھوٹ دے سکتی ہے۔ (۱۳) گنجائش تو ہے؛ لیکن پسندیدہ نہیں۔ (۱۴) نہیں۔ (۱۵) سوال نمبر ۳/ کے تحت اس کا جواب آچکا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند