• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 64559

    عنوان: قسطوں پر زیادہ قیمت كے ساتھ خریداری درست ہے یا نہیں؟

    سوال: مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ یہاں ایک ویب سائٹ ہے جو قسطوں پر موبائل، اے سی ، لیپ ٹاپ وغیرہ دیتی ہے اور جیسے موبائل کی قیمت مارکیٹ میں40000 کی ہے تو وہ 460000 لیتی ہے قسطوں پراور اگر نقد اس سے لیں تو وہ مارکیٹ ریٹ پر دیتی ہے تو کیا اس میں یہ سود ہوگیا نہیں؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 64559

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 544-544/Sd=7/1437 ادھار قسطوں پر موبائل خریدنے میں نقد کے مقابلے میں جو قیمت زیادہ ہوتی ہے، وہ سود نہیں ہے، عقد کے وقت اگر موبائل کی ایک قیمت متعین ہوجائے اور قسطوں کی ادائے گی کی تاریخ بھی طے ہوجائے، تو اس طرح قسطوں پرزیادہ قیمت میں موبائل خریدنا جائز ہے۔ یہ سود نہیں ہے۔ عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعة۔ (سنن الترمذي / باب النہي عن بیعین ۱/۲۳۳) وقال الإمام الترمذي: وقد فسر بعض أہل العلم قالوا بیعتین في بیع أن یقول: أبیعک ہٰذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین ولا یفارقہ علی أحد البیعین فإذا فارقہ علی أحدہما فلا بأس إذا کانت العقدة علی واحد منہما۔ (سنن الترمذي / باب النہي عن بیعین ۱/۲۳۳) ویزاد في الثمن لأجلہ إذا ذکرالأجل مقابلة زیادة الثمن قصدًا۔ (البحر الرائق ۶/۱۱۵، بدائع الصنائع ۴/۳۵۸ زکریا) إذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شہرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا؛ فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وإنما العقد علیہ فہو جائز … الخ۔ (المبسوط للسرخسي ۱۳/۸-۹ غفاریہ کوئٹہ) لأن للأجل شبہا بالمبیع ألا یری أنہ یزاد في الثمن لأجل الأجل۔ (الہدایة ۳/۷۸) سلعة یکون ثمنہا مائة دینار نقداً، وبمأة وخمسین إلی أجل، أن ہٰذا جائز۔ (کتاب الحجة علی أہل المدینة ۲/۶۹۴) أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد۔ (بحوث في قضایا معاصرة ۷)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند