• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 61462

    عنوان: مضاربت اور شركت صحیح ہونے كے لیے كیا شرطیں ہیں؟

    سوال: مضاربت میں اگر رب المال مثلا ایک لاکھ روپے مضارب کو دے پھر مضارب اس سے مثلا تین سو جوڑی کپڑے یا جوتے خریدے اور دونوں کے درمیان نفع اس طرح طے ہو کہ کپڑے کی ہر جوڑی بکنے پر رب المال کو ۳ روپے اور بقیہ وہ لیگا جبکہ کپڑے کا ۳ روپے سے زیادہ میں بکنا یقینی ہے ۔ تو اس طرح تعیین کرنا کیسا ہے ؟ نیز اگر اس طرح کی تعیین کا عرف عام ہو گیا ہو تو کیا حکم ہے ؟ مذکورہ تعیین کی صورت اگر مضاربت مع الشرکت میں ہو تو کیا حکم ہے ؟ با حوالہ جواب تحریر فرمائں ں ۔ جزاکم اللہ۔

    جواب نمبر: 61462

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 862-827/Sn=12/1436-U مضاربت اور شرکت ہرایک کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مضارب اور رب المال اسی طرح شرکاء کے درمیان حصہٴ مشاع (مثلاً جو کچھ نفع ہوگا اس کا آدھا ایک فریق کا، آدھا دوسرے فریق کا) کے طور پر طے ہو؛ اس لیے صورت مسئولہ میں نفع کی تقسیم کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے یہ مفسدِ عقد ہے، اگر اس کا عرف ہو پھر بھی مضاربت میں اس طرح نفع طے کرنا درست نہیں، یہ مضاربت کی حقیقت کے خلاف ہے۔ وشرطہا ․․․ کون الربح بینہما شائعًا فلو عَیَّنَ قدرًا فسدتْ وکون نصیب کلٍّ منہما معلومًا عند العقد وفي الجلالیة: کل شرط یوجب الجہالة في الربح أو یقطع الشرکة (کما لو شرط لأحدہما دراہم مسامة) فیہ یفسدہا وإلا بطل الشرط وصحّ العقد اعتبارًا بالوکالة (درمختار مع الشامي: ۸/ ۴۳۴، ط: کتاب المضاربة، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند