معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 58253
جواب نمبر: 5825301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 461-445/H=6/1436-U جس جس تجارت میں حرام ممنوع مکروہ باطل فاسد امور کے قبیل سے معاملات نہ کیے جائیں، اس کو ا ختیار کرنے کی اجازت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
زید اپنا پلاٹ یا مکان /جائیداد وغیرہ بکر کو فروخت کرتا ہے مشتری یعنی بکر اس پلاٹ کو خریدنے کیلئے بیعانہ میں کچھ رقم دے دیتا ہے اور دونوں باہمی رضامندی سے اقرانامہ /معاہدہ میں یہ بات تحریر کرتے ہیں کہ اگر مشتری نے مقررہ مدت تک بقیہ رقم ادا نہ کی یا معاہدہ سے مکر گیا تو بائع کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کا بیعانہ ضبط کرے۔ 1? کیا بیعانہ کی رقم بائع ضبط کر سکتا ہے ؟ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو بعض صور توں میں اس کو مشتری کی طرف سے نقصان پہچتا ہے۔(مثلا مشتری ایک سال کے بعد یہ کہہ دیتا ہے کہ میں یہ مکان وغیرہ نہیں لیتا میرا بیعانہ واپس کرو اب اس صورت میں اگر مشتری کے ساتھ بات کی ہوتی تو ممکن تھا مکان کوئی اور شخص خرید لیتا یا مکان کرایہ پر لگ جاتا اور کرایہ ایک سال تک آتا رہتا وغیرہ)؟ اگر بیعانہ لینا یا ضبط کرنا جائز ہے تو فبہا ، اور اگر نہیں تو کیا کوئی اور ایسی صورت ہے کہ بائع کو اس قسم یا اور کسی نقصان سے بچایا جائے جو مشتری کے بائع کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے بائع کو ہوتا ہے۔
5461 مناظرمیری اطلاع کے مطابق علمائے کرام
کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع کی کوئی متعین آخری حد نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا
جارہا ہے کہ اس فتوی کی وجہ سے تقریباً تمام کاروباری لوگ چاہے وہ خوردہ فروش ہوں،
تھوک فروش ہوں، یا صانع ہوں یا پیشہ ور ہو جیسے وکیل، ڈاکٹر وغیرہ وہ لوگ بہت زیادہ
اور حد سے زیادہ منافع لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مزید برآں، اب ہم قیامت کی ایک
علامت دیکھ رہے ہیں کہ ادنی اور حقیر کاروبار کے مالک جیسے کہ قصاب، نائی وغیرہ
مسلم معاشرہ کے بہت مالدار لوگ ہوچکے ہیں۔اس لیے میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ
بات درست ہے کہ شریعت میں کاروبار میں منافع کمانے کی کوئی آخری حد متعین نہیں ہے؟
کیا شریعت نے اس بارے میں کوئی متعین اخلاقی حد نہیں متعین کی ہے؟ یا کیا معزز
علمائے کرام مسلم معاشرہ کو صحیح اسلامی کاروبار کی تصویر دکھانے کے ذمہ دار نہیں
ہیں اس پر قابو پانے کے لیے؟
شراکت کی ایک شکل
4554 مناظر