• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 5632

    عنوان:

    میرا سوال ہے کہ میں ڈالر کا کاروبار کرتا ہوں اورڈالر کو ایک سال کے لیے دیتا ہوں۔ اس صورت میں کہ ڈالرکی نقد قیمت ۷۰/پاکستانی روپئے ہے، اور میں ایک سال کے لیے ۸۰/پاکستانی ریال کے بدلے میں دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ایک لاکھ ڈالر کو ایک سال کے لیے جب کہ ڈالر کی قیمت ۷۰/پاکستانی روپئے ہے اور ایک سال کے لیے میں ۸۰/پاکستانی روپئے پر دیتا ہوں اور وہ مجھے سال کے بعد ۸۰۰۰۰۰/پاکستانی روپئے دیتا ہے جب کہ میں نے اس کو ۱۰۰۰۰۰/ڈالر دیا تھا، جس وقت وہ ۷۰۰۰۰۰/پاکستانی روپئے بنتے تھے۔

    سوال:

    میرا سوال ہے کہ میں ڈالر کا کاروبار کرتا ہوں اورڈالر کو ایک سال کے لیے دیتا ہوں۔ اس صورت میں کہ ڈالرکی نقد قیمت ۷۰/پاکستانی روپئے ہے، اور میں ایک سال کے لیے ۸۰/پاکستانی ریال کے بدلے میں دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ایک لاکھ ڈالر کو ایک سال کے لیے جب کہ ڈالر کی قیمت ۷۰/پاکستانی روپئے ہے اور ایک سال کے لیے میں ۸۰/پاکستانی روپئے پر دیتا ہوں اور وہ مجھے سال کے بعد ۸۰۰۰۰۰/پاکستانی روپئے دیتا ہے جب کہ میں نے اس کو ۱۰۰۰۰۰/ڈالر دیا تھا، جس وقت وہ ۷۰۰۰۰۰/پاکستانی روپئے بنتے تھے۔

    جواب نمبر: 5632

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 707=656/ د

     

    ڈالر اور پاکستانی روپیہ دونوں مختلف جنس ہیں اس لیے ایک ڈالر کے بدلے بجائے70/ روپئے پاکستان کے جو موجودہ ریٹ ہے 80/روپیہ پاکستانی لینے پر معاملہ کرنا اگرچہ سود کے زمرے میں نہیں آتا اور اس کو حرام نہیں کہیں گے، مگر گورنمنٹ کے طے کردہ ریٹ سے زاید لینا قانوناً جرم ہونے کی وجہ سے موجب گناہ ہے۔ نیز مذکور الصدر حکم اس وقت ہے جب آپ نے ریال دیتے وقت 80/ کے حساب سے معاملہ طے کیا ہے اور فریق ثانی کو اس کی ادائیگی کے لیے ایک سال کی مہلت دیدی ہے او راگر معاملہ 70 کے حساب سے ہوا ایک سال مہلت دینے کی وجہ سے آپ نے 80/ روپیہ لینے کی بات طے کی ہے تو یہ سود کے زمرہ میں شامل ہوکر حرام ہوجائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند