• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 54454

    عنوان: دكان دار كا خریدار كو انعام میں گھڑی وغیرہ دینا

    سوال: ایک کپڑے کے دکاندار نے یہ شرط لگائی کہ جو آدمی تین ہزار کے کپڑے کی خرید کر ے گا تو ہم اس کو ایک کوپن دیں گے اور ایک مہینے کے بعد قرعہ اندازی کریں گے جس کا نام آئے گا توپہلے کو سونے کی چین، دوسرے کو موبائل ، اس طرح پانچ انعامات ہیں اور جتنے بھی بقیہ کوپن والے جن کا نام نہیں آیا ان کو اپنی جانب سے انعام میں گھڑی یا بیگ دیں گے۔ یاد رہے کہ یہ انعام دکاندار اپنے منافع میں سے دے رہا ہے ، گراہک سے اس کا کچھ عوض نہیں لے رہا ہے تو شریعت کے اعتبار سے یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 54454

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 13-13/Sd=10/1435-U صورت مسئولہ میں تین ہزار کے کپڑے خریدنے پر دکاندار کی طرف سے انعام کی پیش کش کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے یہ سامان کی خریداری پر لوگوں کو ابھارنے اور رغبت دلانے کے لیے دکاندار کی طرف سے ایک طرح کا عطیہ ہے، حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں: ”بندے کے خیال میں یہ انعام ”زیادة في المبیع“ نہیں ہے؛ بلکہ ایک ہبہٴ مبتدئہ کا ایک طرف وعدہ ہے، بائع اور مشتری میں سے کوئی بھی اسے ”زیادة فی المبیع“ نہیں سمجھتا، نہ عرفِ عام میں اسے ”زیادة فی المبیع“ سمجھا جاتا ہے اور شرعاً بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ بیع تام ہونے کے بعد جب بھی بائع مشتری کو کوئی چیز بلا قیمت دے، تو اسے ”زیادة فی المبیع“ قرار دیا جائے۔ (فتاوی عثمانی: ۳/۲۵۷، کتاب البیوع، ط: زکریا دیوبند) وقال العثماني: إن مثل ہذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عملہ أحد لا تخرج عن کونہ تبرعاً وہبةً؛ لأنہا لیس لہا مقابل، وأن العمل الذي عملہ الموہوبُ لہ لم یکن علی أساس الإجارة أو الجہالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعملہ، وإنما کان علی أساس الہبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنہ من باب الحث علی الخیر والإعانة علیہ بالمال، وہو من قبیل الہبة (ہامش الفتاوی للعثماني نقلاً عن بحوث في قضایا فقہیة المعاصرة: ۳/ ۲۵۹، کتاب البیوع، ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند