• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 50336

    عنوان: کیا استعمال شدہ کپڑے جو غیر ملکوں کے ہمارے ملک میں بکتے ہیں ، ان کا استعمال کرسکتے ہیں؟

    سوال: (۱) کیا استعمال شدہ کپڑے جو غیر ملکوں کے ہمارے ملک میں بکتے ہیں ، ان کا استعمال کرسکتے ہیں؟ (۲) ایک شخص صاحب حیثیت ہو مال دار ہو اور اس کے پاس اچھا لباس موجود ہو تب بھی وہ گندا استعمال کرے اس خیال سے کہ اچھا یا نیا لباس فضول خرچی ہے جب تک لباس پھٹ نہ جائے ، نیا نہیں لینا چاہئے، اور یہ کہ صحابہ پیوند والا لباس پہنتے تھے اکثر اور یہ سادگی کی علامت کے ؟ شریعت کی نظر میں یہ سوچ اور عمل کیساہے؟ (۳) کیا اچھا لباس یا جوتے پہننا تکبر کی علامت ہے؟ جب کہ پہننے والا صاحب حیثیت بھی ہو اور مال کی زکاة صدقات بھی ادا کرتاہو؟

    جواب نمبر: 50336

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 284-297/N=3/1435-U (۱) جی ہاں! دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے کپڑے خریدکر استعمال کرسکتے ہیں، جائز ہے البتہ اگر ان کپڑوں میں اعضائے مستورہ مکمل طور پر نہ چھُپیں یا ان کی ساخت وبناوٹ نظر آئے یا وہ غیروں کا خصوص لباس ہو جس سے ان کے ساتھ مشابہت لازم آئے تو ان کا پہننا درست نہ ہوگا، اور ان کپڑوں میں اگر ناپاکی یا یقین غالب گمان ہو تو دھوکر استعمال کیا جائے ورنہ صرف شک وشبہ کی بنا پر دھونے کی ضرورت نہیں۔ (۲) آدمی کا اپنی حیثیت کے مطابق اچھا وعمدہ لباس پہننا جائز ہے بلکہ اظہار نعمت کے طور پر پہننا مستحسن ہے، فضول خرچی ہرگز نہیں، البتہ اس میں حد سے زیادہ تکلف نہ کیا جائے، نیز عمدہ لباس پہننے میں تکبر وغیرہ کی نیت بھی نہ ہو : وعن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "إن اللہ یحب أن یری أثر نعمتہ علی عبدہ"․ رواہ الترمذي․ وعن جابر قال: أتانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرا فرأی رجلا شعثا قد تفرق شعرہ فقال: "ما کان یجد ہذا ما یسکن بہ رأسہ؟" ورأی رجلا علیہ ثیاب وسخة فقال: "ما کان یجد ہذا ما یغسل بہ ثوبہ؟" رواہ أحمد والنسائي․ وعن أبي الأحوص عن أبیہ قال: أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی ثوب دون فقال لی: "ألک مال؟" قلت: نعم. قال: "من أي المال؟" قلت: من کل المال قد أعطاني اللہ من الإبل والبقر والخیل والرقیق. قال: "فإذا آتاک اللہ (ص:1247] مالا فلیر أثر نعمة اللہ علیک وکرامتہ" . رواہ أحمد والنسائي وفي شرح السنة بلفظ المصابیح․ (مشکاة شریف: ۳۷۵) اور شامی (۹: ۵۰۵ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: اعلم أن الکسوة منہا فرض․․․ ومستحب: وہو الزائد لأخذ الزینة وإظہار نعمة اللہ تعالی، قال علیہ الصلاة والسلام: إن اللہ یحب أن یری أثر نعمتہ علی عبدہ، ومباح: وہو الثوب الجمیل التزین في الأعیاد والجمع ومجامع الناس لا في جمیع الأوقات لأنہ صلف وخیلاء، ․․․ اھ البتہ اگر کوئی شخص محض تواضع کے طور پر وسعت کے باوجود معمولی اور سادے لباس پہنے، وہ گندے میلے کچیلے نہ ہوں کہ لوگوں کو گھن ہو اور ضرورت سے زیادہ تمام چیزیں غریبوں پر خرچ کردیتا ہو اور سادگی کی زندگی کو پسند کرتا ہو تو یہ اہل تقوی کے ہمت کے کاموں میں سے ہے، حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " من ترک لبس ثوب جمال وہو یقدر علیہ وفي راویہ: تواضعا کساہ اللہ حلة الکرامة․ رواہ أبوداوٴد وروی الترمذي عنہ عن معاذ بن أنس حدیث اللباس (مشکاة شریف: ص۳۷۵۔ (۳) حدود میں رہتے ہوئے اپنی حیثیت کے موافق عمدہ لباس پہننا تکبر کی علامت نہیں، نیز ایسے شخص کے متعلق تکبر کی بدگمانی کرنا حرام ہے کیونکہ تکبر باطنی چیز ہے، البتہ اس میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے ورنہ یہ تکبر تک پہنچاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند