• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 42237

    عنوان: رہن سے نفع اٹھانا درست نہیں

    سوال: زید نے ایک گھر بکر کو بیچا، ادائیگی کی اس شرط کے ساتھ کہ زید جب چاہے تھوڑی تھوڑی رقم بکر کو ادا کرتاجائے جب تک ساری رقم ادا نہیں ہوجاتی مکان زید کے قبضہ میں رہے گا اور اس کو استعمال کی مکمل اجازت ہوگی ، چاہے تو خود رہے یا چاہے توکرایہ پر دیدے۔ جب بکر ساری رقم ادا کردے گا تو زید کے لیے لازم ہے کہ وہ مکان کا قبضہ فوراًبکر کے حوالے کرے اور اس کے نام منتقل بھی کروادے۔ براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ اگر پوری رقم ادا ہونے تک زید وہ مکان کرایہ پر دیتاہے تو کیا یہ انکم سود یا گروی کی مد میں تو نہیں آتی؟ یا اس معاملہ میں کوئی اور شرعی قباحت تو نہیں ہے؟

    جواب نمبر: 42237

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1224-1320/N=1/1434 ادھار خرید وفروخت کی صورت میں بائع (بیچنے والے) شرعاً ہرگز اس بات کا حق واختیار نہیں ہوتا کہ مشتری (خریدنے والا) جب تک مکمل ثمن ادا نہ کردے فروخت کردہ چیز اس کے حوالہ نہ کرے، بلکہ اپنے قبضہ میں رکھے، ہاں البتہ اگر ادھار ثمن کے عوض بطور رہن رکھ لے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس صورت میں بائع کا فروخت کردہ چیز سے کسی قسم کا نفع اٹھانا خواہ خود استعمال کرکے یا کسی کو کرایہ پر دے کر یا کسی اور طرح شرعاً ہرگز جائز و درست نہ ہوگا، بلکہ بحکم سود اور حرام ہوگا اس لیے صورت مسئولہ عنہا میں زید اگر معاملہ رہن کے بغیر مکمل ثمن کی ادائیگی تک فروخت کردہ مکان اپنے قبضہ میں رکھتا ہے تو یہ بکر کے ساتھ شرعاً ظلم ہوگا اور اگر معاملہ رہن کے بعد قبضہ میں رکھتا ہے تو یہ جائز ودرست ہے لیکن مکان کرایہ پر دے کر یا کسی اور طرح اس سے نفع اٹھانا سود ہوگا اور شریعت میں ظلم کرنا اور سود لینا دونوں ہی ناجائز وحرام ہیں، خلاصہ یہ کہ سوال میں مذکور معاملہ شرعی اعتبار سے جائز ودرست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند