معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 162456
جواب نمبر: 162456
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1077-263T/SN=1/1440
مضاربت کا شرعی اصول یہ ہے کہ مال مضاربت سے کاروبار کے دوران جو کچھ بھی منافع حاصل ہوں وہ فریقین (رب المال اور مضارب) کے درمیان حصہ فیصدی (مثلاً آدھا ، آدھا یا دو تہائی اور ایک تہائی) کے طور پر تقسیم ہوگا، اگر نقصان ہو جائے تو اوّلاً اس کی تلافی منافع سے کی جائے گی، اگر منافع سے تلافی نہ ہو تو مال مضاربت سے اس کی تلافی کی جائے گی، ایسی صورت میں رب المال کا مال جائے گا اور مضارب کی محنت، اگر منافع حصہٴ مشاع کے طور پر طے نہ ہو؛ بلکہ مقدار میں متعین ہو یا اصل مال (مضارب کا سرمایہ) محفوظ رہنے کی شرط ہو تو شرعاً اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، سوال میں جو طریقہٴ کار مضاربت کا ذکر کیا گیا ہے و ہ مذکورہ بالا اصول کے مطابق نہیں ہے؛ اس لئے یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ اگر اس شخص کے ساتھ کاروبار کرنا ہی ہو تو کسی اچھے اور معتبر مفتی کے ساتھ بیٹھ کر شرعی اصول کے مطابق طریقہٴ کار طے کر لیا جائے۔ وشرط تسلیم المال إلی المضارب بلا ید لرب المال فیہ عاقداً کان أو غیر عاقد ․․․․ وکون الربح بینہما مشاعاً ، فتفسد إن شرط لأحدہما عشرة دراہم مثلاً (ملتقی الابحر مع مجمع الأنہر: ۳/۴۴۵) وفیہ (۳/۴۵۸) وماہلک من مال المضاربة صرف إلی الربح أوّلاً ، فإن زاد علی الرّبح لایضمن المضاب الخ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند