• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 158444

    عنوان: اگر سارا سامان مالکِ زمین کا ہو اور بیج بونے والے کو اس کی طے شدہ اجرت دیدی جائے تو كیا یہ درست ہے؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! ایک سوال تھا، وہ یہ کہ ایک زمیں دار کے پاس زراعتی زمین ہے، اور موسم کے شروع میں زمیں دار ایک آدمی سے معاہدہ کرتا ہے کہ تم میری زمین میں صرف بیج بووٴ گے، سامان سارا میرا ہوگا اور اس کام کی میں تم کو طے شدہ اجرت دے دوں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا معاملہ کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟ (۲) معافی چاہتا ہوں اور ایک سوال کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ ہم فجر کا وقت اور عشاء کا وقت کے بارے میں کیسے جانیں، بیشک ہم گھڑی وغیرہ سے تو جان سکتے پر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جیسے میں نے سنا ہے کہ ظہر کا وقت کا زوال کے بعد شروع ہوتا اور عصر کا وقت جب ہمارا سایہ دوگنا ہو جاتا ہے اور مغرب کا وقت سورج غروب ہونے کے فوری بعد ہوتا ہے، تو ہم کیا آسمان دیکھ کر یہ نہیں پہچان سکتے کہ اب عشاء کا وقت ہوگیا ہے یا فجر کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر astronomical twilight ( خلائی دوربین) کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی فجر کی اذان دی جاتی ہے۔ براہ کرم، میرے اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 158444

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 596-622/L=6/1439

    (۱) اگر سارا سامان مالکِ زمین کا ہو اور بیج بونے والے کو اس کی طے شدہ اجرت دیدی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

    (۲) آپ بھی آسمان دیکھ کر اوقاتِ نماز کا اندازہ لگاسکتے ہیں بہ شرطیکہ مطلع صاف ہو اور آسمان کا کنارہ وغیرہ صاف نظر آئے، مثلاً غروبِ شفقِ احمر پر مغرب کا وقت ختم ہوکر عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور صبح صادق تک باقی رہتا ہے اس طریقے سے فجر کا وقت صبح صادق سے شروع ہوکر طلوعِ آفتاب تک باقی رہتا ہے رات ختم ہونے سے قبل افق پر ایک لمبی سپیدی چھاجاتی ہے اس کے بعد دوبارہ تاریکی آتی ہے اس کو عرب صبح کاذب کہتے ہیں اس کے بعد دوبارہ سپیدی آتی ہے یہ افق میں چوڑائی میں چھاجاتی ہے اس کو صبح صادق کہتے ہیں اس سے احکامِ شرع متعلق ہوتے ہیں نہ کہ صبح کاذب سے اور اس سے فجر کی ابتداء ہوتی ہے۔

    وتصح إجارة أرض للزراعة مع بیان ما یزرع فیہا، أو قال علی أن أزرع فیہا ما أشاء کی لا تقع المنازعة وإلا فہی فاسدة للجہالة وتنقلب صحیحة بزرعہا ویجب المسمی (رد المحتار: ۶/ ۲۹، ط: سعیدیہ) قال في شرح التنویر ووقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرة عندہما وبہ قالت الثلاثة وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا فکان ہو المذہب (رد المحتار: ۱/ ۳۳۴، ط: سعیدیہ) وقت صلاة الفجر من أول طلوع الفجر الثاني وہو البیاض المنتشر المستطیر لا المستطیل إلی قبیل طلوع ذکاء بالضم غیر منصرف اسم الشمس (رد المحتار: ۱/ ۳۵۷، ط: سعیدیہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند