• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 148426

    عنوان: کسی ایک گاہک یا مختلف گاہکوں کے آردڑ پر مطلوبہ کھانے تیار کرنا

    سوال: کاروبار میں شراکت کی نوعیت،صورت مسئلہ:زید اور عمرو کا مشورہ ہوا کہ مل کر کیڑنگ کا کام کرتے ہیں۔ مناسب جگہ کی تلاش شروع ہوئی، عمرو کے ایک جاننے والے ، یعنی طاہر، کی جگہ پسند کی گئی، اور ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ پندرہ سال کے لیے اس جگہ کو کرائے پر لینا کا اتفاق ہو گیا،مطبخ کا نقشہ تیار کیا گیا، اور اس کی تعمیر زید او ر عمرو کے سرمائے سے شروع ہوئی۔تعمیر کے دوران طاہر یعنی مالک زمین، کو بھی مطبخ میں شریک کر لیا گیا، اور مطبخ کی تعمیر میں ان کا بھی سرمایہ لگ گیا، اور ساتھ ہی طاہر نے کرایہ ڈیڑھ لاکھ سے کم کرکے ایک لاکھ پچیس ہزار کر دیا، اس بنیاد پر کہ زمین کا کچھ حصہ ان کے اپنے استعمال میں ہے ، اور اس کا کرایہ نہیں وصول کیا جاسکتا۔ زید نے دوران تعمیر اپنے حصہ میں اپنے ایک دوست خالد کا بھی سرمایہ لگوایا۔کل سرمایہ تقریبا تین لاکھ لگا، جس میں طاہر کا ایک لاکھ، عمرو کا ایک لاکھ، زید کا ستر ہزار اور خالد کا تیس ہزار ہے ۔زمین کا سودا، اس پر تعمیر کے لیے اس کی رجسٹری کرانا، نقشہ جات کا بنوانا، ان کو بلدیہ سے منظور کرانا، ٹھیکداروں سے اتفاق کرنا ، تعمیر کی ساری نگرانی ، مطبخ میں ضرورت کے آلات کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر خریدنا، مطبخ کا لیے عملے کا انتظام کرنا، مطبخ کو قانونی طور پر متعلق حکومتی اداروں سے منظور کروانا وغیر ہ وغیرہ ، یہ سارے کام عمرو نے تقریبا دو سال کے عرصے میں کیے ۔آگے چلانے کے لیے بھی تمام شرکاء اس پر متفق ہیں کہ عمرو ہی چلائے گا۔مطبخ کے چلانے کی ترتیب عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ پہلے مارکیٹنگ کی جائے ، گاہک اپنے کھانوں کی نوعیت اور مقدار بتاتا ہے ، ریٹ اور وقت طے ہوتے ہیں، ایڈوانس دیا جاتا ہے ، جس کو لے کر عمرو ضرورت کا سامان خریدتا ہے ، اور پکوا کر تیار کرا کر گاہک کو پہنچا آتا ہے ۔\nتینوں شرکاء کا نفع کی تقسیم میں یہ اتفاق ہے کہ: 1. کرائے کے علاوہ سارے اخراجات نکالنے کے بعدجو پیسہ بچے گا، اس میں سے سب سے پہلے طاہر کا حصہ اس کے راس المال کے حساب سے نکالا جائے گا۔ 2. اس کے بعد جو پیسہ بچے گا اس میں سے زمین کا کرایہ منہا کر لیا جائے گا۔ 3. پھر جو رقم بچ جائے اس کو زید عمرو اور خالد میں راس المال کے حساب سے تقسیم کر دیا جائے ۔ 4. پھرزید طاہر اور خالد اپنے نفع کا دس فیصد حصہ عمرو کو شریکِ فاعل ہونے کی وجہ سے دیں گے ۔تینوں شرکاء کا یہ اتفاق بھی تھاکہ مطبخ کو تیار کرنے کے لیے جو کام عمرو کو دو سال کی مدت میں کرنے پڑے ہیں، اس کے لیے عمرو کو ایک معقول سی تنخواہ دی جائے گی۔ لیکن تنخواہ کی مقدار طے نہیں ہوپائی۔سؤالات: ۱۔ اس شراکت کی کیا تکییف ہے ؟ شرکة ملک، شرکة عقد، شرکة تقبل اعمال، استصناع، وغیرہ؟ اور اس پر اس تکییف کے اعتبار سے کیا احکام مرتب ہوتے ہیں؟ ۲۔زمین کے کرایہ کی تقسیم ان زید عمرو اور خالد پر کس طرح تقسیم کی جائیگی، عدد افراد کے اعتبار سے تینوں میں برابر تقسیم ہو گی، یا قدر راس المال کے اعتبار سے تقسیم ہو گی؟ ۳۔ عمرو کا یہ مطالبہ ہے کہ مطبخ کو تیار کرنے کے لیے دو سال کے محنت کی اجرت کا حساب اس طرح لگایا جائے کہ بقیہ شرکاء، یعنی زید خالد اور طاہر، کا جتنا سرمایہ تعمیر وغیرہ میں لگا، وہ چونکہ اب متعین ہو گیا ہے ، لہذا اس کا دس فیصد یعنی : بیس ہزار روپے ، عمرو کو اجرت ملے ۔ کیا ایسا کرنا اس کے لیے درست ہے ؟ واضح رہے ، کہ جو کام عمرو نے دو سال کی مدت میں کیے ہیں ، مجموعی طور پروہ کام ایسے نہیں ہیں جن کی مارکیٹ میں مثل موجود ہے ، جس کی بنیاد پر اجرت مثل کا اندازہ کیا جا سکے ۔

    جواب نمبر: 148426

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 311-812/N=8/1438

     (۱) : یہ شرکت بہ ظاہر شرکت تقبل معلوم ہوتی ہے اور کیٹرنگ کا کام استصناع کی شکل ہے، یعنی: کسی ایک گاہک یا مختلف گاہکوں کے آردڑ پر مطلوبہ کھانے تیار کرنا اور گاہک کو سپرد کرنا یا اس کی متعینہ جگہ پر پہنچانا، پس اس کاروبار سے متعلق جملہ احکام شرکت تقبل اور بیع استصناع کو مد نظر رکھ کر متفرع ہوں گے۔

     (۲) : زمین کے کرایہ کی تقسیم طاہر کے علاوہ دیگر شرکاء پر حسب سرمایہ وشرکت ہوگی، افراد کے اعتبار سے نہیں؛ کیوں کہ ہر شریک کا حصہ عمارت اور اشیائے مطبخ وغیرہ میں حسب سرمایہ مختلف ہے۔ اسی طرح کیٹرنگ کے کام میں زمین کا استعمال اور حبس بھی ہر شریک کے حق میں حسب سرمایہ مختلف ہے، ہر ایک کے حق میں یکساں وبرابر نہیں ہے۔

     (۳) : زمین کی کرایہ داری کے معاملہ کے بعد سے کیٹرنگ کا کام شروع ہونے تک عمرو نے دوڑ دھوپ کرکے دو سال کے عرصہ میں جو محنت کی، وہ بہ ظاہر دیگر شرکاء سے کسی معاہدہ کے بغیر کی؛ اس لیے از روئے شرع عمرو اپنی دو سالہ محنت پر کسی معاوضہ کا مستحق نہیں ہے؛ البتہ شرکاء اپنی مرضی وخوشی سے اپنی جیب سے حسب استطاعت تھوڑا تھوڑا پیش کردیں تو اس میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ بہتر ہے، اس سے عمرو کی دلجوئی ہوجائے گی اور احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند