• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 145838

    عنوان: پراپرٹی خرید وفروخت کی صورتیں؟

    سوال: آج کل پراپرٹی کی خرید وفروخت کی مختلف شکلیں رائج ہیں جن کے متعلق آپ حضرات کی تفصیلی اور مدلل رائے درکار ہے ان صورتوں کوبالترتیب ذکر کیا جاتا ہے : #:نئی سوسائٹیز بنانے والے اپنی سوسائٹی کی تشہیر کرتے ہیں اور مختلف رقبہ کے پلاٹس کی فائلز بناتے ہیں جن کی خرید وفروخت کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے ۔ الف:فائلز کا خریدنا جب کہ سوسائٹی کا کوئی نقشہ نہیں بنا ہو کیسا ہے ؟نیزان فائلز کا آگے بیچنے کیسا ہے ؟ ب:اگر نقشہ بنا ہو تو ایسی صورت میں فائلز کا خریدناا ور ان کو آگے بیچنا اور اس کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟جبکہ فی الحال پوری رقم کی ادائیگی کی وجہ سے سوسائٹی پلاٹ حوالے نہیں کر رہی۔یا کسی انتظامی مجبوری کی وجہ سے مکمل ادائیگی ہونے کے باوجود بھی سوسائٹی پلاٹس کا عملی قبضہ نہیں دے سکتی مثلا،عملی طور پر پلاٹ کی حد بندی ہی نہ ہوئی ہوصرف نقشہ بنا ہوا ہو۔ ج:پلاٹ کا نقشہ بنا ہو اور خریدار نے بعض قسطیں بھی ادا کر دی ہوں لیکن وہ پلاٹ کا قبضہ نہیں لے سکتا کیونکہ سوسائٹی والے قبضے دینے کے لئے پوری ادائیگی مانگتے ہیں ایسی صورت میں اس پلاٹ کو آگے بیچنا کیسا ہے ،جائز یا نا جائز؟جبکہ عملی طور پر پلاٹس کی حد بندی بھی ہو چکی اور گاہک کسی بھی مجبوری کی وجہ سے فی الفور ادائیگی بھی نہیں کر سکتا؟ایسی صورت میں گاہک پر اس پلاٹ کی زکوٰة کا کیا حکم ہے ؟ # پلاٹس کی خرید وفروخت کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی سوسائٹی مختلف رقبے کے پلاٹس کے فائلز بیچتی ہے جس کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا اور مخصوص رقم کی وصولی کے بعد وہ پلاٹس کا نقشہ بناتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے مطلوبہ رقبے کے پلاٹس گاہگوں کے حوالے کرتی ہے اس صورت میں پہلے سے پلاٹ کی جگہ کی کوئی تعیین نہیں ہوتی قرعہ اندازی کے بعد جگہ متعین ہوتی ہے اور جگہ کی نوعیت کے اعتبار سے قیمتی پلاٹ نکلنے پر سوسائٹی گاہگ سے مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہے ۔کیا یہ صورت جائز ہے ؟ جبکہ پلاٹ متعین نہیں ہوتا،متعین قیمت میں اضافے کا بھی امکان ہوتا ہے تاہم یہ اضافہ گاہگ کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اگر وہ نہ لے تو اسے دوسری جگہ پر مقررہ قیمت کا پلاٹ بھی دیدیا جاتا ہے ۔کیا قرعہ اندازی سے پہلے گاہک اور سوسائٹیز والوں کا یہ معاملہ بیع کہلائے گا؟اگر یہ بیع نہیں تو اس معاملے کی فقہی تکییف کیا ہو گی،یعنی گاہک کا فائل خریدنا ،سوسائٹی کو ادائیگی کرنا،اس کے بعد پلاٹ نکل آنے پر مزید ادائیگی کرنا وغیرہ۔اگر قیمت میں کوئی اضافہ نہ ہو تو کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہو گا جبکہ ابتداءً جگہ کی کوئی تعیین نہیں ہوتی؟ #پلاٹ نکلنے سے پہلے کا معاہدہ بیع ہو گا یا وعدہ بیع؟نقشہ بننے سے پہلے یا نقشہ بننے کے بعد گاہک کا اس پلاٹ کو آگے بیچنا غیر مقدور التسلیم،مجہول،یا ملک الغیر میں سے کون سے صورت ہو گی؟فقہاء کرام نے غیر مقدور التسلیم کی کیا تشریح کی ہے ؟کیا غیر مقدور التسلیم اور ملک غیر میں کوئی فرق ہے ؟یا غیر مقدور التسلیم سے مراد اپنی ملک کی وہ اشیاء جو دسترست سے باہر ہو جیسے بھاگا ہوا غلام۔ # پلاٹ خریدنے کی کن کن صورتوں میں ملکیت آ جاتی ہے ؟کیا محض پلاٹس کا نقشہ بننے کے بعد جبکہ عملی طور پر کوئی حد بندی نہ ہوئی ہو اس کو مالک کی طرف سے تخلیہ کہا جائے گا اور یہ گاہک کا قبضہ کہلائے یا یا عقار وغیرہ میں عملی قبضہ کی طرح تخلیہ کی بھی ضرورت نہیں محض تعیین کافی ہے ؟ براہ کرم ان سوالات کا مدلل جواب عنایت فرما کر رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 145838

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 233-201/M=2/1438

    (۱) جب پلاٹس کا نقشہ تیار نہیں ہے تو اس کی فائلز خریدنے کی کیا شکل ہوتی ہے؟ نیز اس فائلز میں کیا رہتا ہے؟ اور اس کی خریداری کیسے ہوتی ہے؟ وضاحت کے ساتھ دوبارہ لکھیں۔

    (۲) جب نقشہ تیار ہو گیا اور بائع و مشتری کے درمیان مبیع کے تمام اوصاف، مبیع کی سپردگی کا وقت اور ثمن کی تعیین و میعاد اور ادائیگی ثمن کی صورت وغیرہ متعین ہوگئے، پھر باضابطہ ایجاب و قبول اور عملی طور پر پلاٹ کی حد بندی ہو چکنے کے ذریعہ معاملہ تام ہو جائے ، توپلاٹ مشتری کی ملک سمجھا جائے گا، اور صورتِ مسئولہ میں جب ثمن کی مکمل ادائیگی ہو چکی ہے تو پلاٹ کی عملی طور پر حد بندی کے بعد مشتری اس پلاٹ کو آگے فروخت کرسکتا ہے محض نقشہ تیار ہونے کی شکل میں عملی طور پر حد بندی سے قبل اُسے فروختگی کی اجازت نہ ہوگی۔ وإذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع (ویثبت الملک لکل منہما) ہدایة: ۳/۲۰، اشرفی بکڈپو دیوبند۔ وبتأ جیل الثمن بعد البیع ․․․․․ قبل قبض الثمن فلیس لہ بعدہ ردہ إلیہ / ردمختار: ۷/۹۳، زکریا۔ اور گاہک نے جتنی قسطیں ادا کردی ہیں اُن کے بقدر پلاٹ کی جو مالیت حولانِ حول کے بعد ہوگی اس کی زکوٰة گاہک پر واجب ہے بشرطے کہ گاہک نے تجارت کی غرض سے خریدا ہو، اور پلاٹ کا بقیہ حصہ جس کی قسط ابھی ادا نہیں کی گئی ہے اس کی زکوة مشتری پر نہیں ہے۔

    (۴) نقشہ تیار ہونے سے قبل فائلز خریدنے کی کیا شکل ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت کریں، اور قرعہ اندازی سے پہلے جو مخصوص رقم گاہک سے وصول کی جاتی ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ کیا قرعہ اندازی کے بعد پلاٹس اور ثمن کی تعیین کے وقت اُس مخصوص وصول کردہ رقم کو ثمن میں شمار کرکے منہا کیا جاتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو اُس مخصوص رقم کے وصول کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کس چیز کے عوض وہ وصول کی جاتی ہے، نیز اگر کسی گاہک کا قرعہ اندازی میں حصہ نہ نکلے تو وہ مخصوص وصول کردہ رقم اُسے لوٹائی جاتی ہے یا نہیں؟ ہر ایک شق کو واضح طور پر لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔

    (۵) پلاٹ نکلنے سے معاہدے کی کیا شکل ہوتی ہے؟ مندرجہ بالا قرعہ اندازی ہی کی شکل مراد ہے یا کوئی اور؟ جو بھی ہو اس کی وضاحت کریں، جب پلاٹ کا نقشہ ابھی تیار نہیں ہوا تو اُسے آگے فروخت کرنے کی کیا شکل ہے جب کہ ابھی یہ معلوم نہیں کہ مبیع کیسی ہے؟ کتنی ہے؟ کہاں ہے؟ اس کو لکھیں اور نقشہ تیار ہونے کے بعد فروخت کرنے کا حکم اوپر (۲) کے تحت آچکا ہے۔

    (۶) عقار (جائداد) میں منقولات کی طرح قبضے کی شرط نہیں ہے بلکہ جائداد میں اگر عرفاً نقشہ تیار ہونے اور مبیع کے حدودِ اربعہ کے متعین ہونے کے بعد بایں طور کہ اس میں ضرر یا غرر کا اندیشہ نہ ہو بائع کی جانب سے قبضہ دلانا سمجھا جاتا ہو تو مشتری کا قبضہ سمجھا جائے گا/ مطلب: في التصرف في المبیع والثمن قبل القبض: صحّ بیع عقار لایخشی ہلاکہ قبل قبضہ من بائعہ لعدم الغرر لندرة ہلاک العقار/ الدرالمختار: ۲/ ۲۶۸، ۲۶۹، زکریا۔

    الأصل: أن کل عقد ینفسخ بہلاک العوض قبل القبض لم یجز التصرف في ذلک العوض قبل قبضہ کالمبیع في البیع ․․․․․․․ ومالا ینفسخ بہلاک العوض فالتصرف فیہ قبل القبض جائز/ شامی: ۷/۳۸۰، زکریا دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند