معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 13422
میری اطلاع کے مطابق علمائے کرام
کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع کی کوئی متعین آخری حد نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا
جارہا ہے کہ اس فتوی کی وجہ سے تقریباً تمام کاروباری لوگ چاہے وہ خوردہ فروش ہوں،
تھوک فروش ہوں، یا صانع ہوں یا پیشہ ور ہو جیسے وکیل، ڈاکٹر وغیرہ وہ لوگ بہت زیادہ
اور حد سے زیادہ منافع لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مزید برآں، اب ہم قیامت کی ایک
علامت دیکھ رہے ہیں کہ ادنی اور حقیر کاروبار کے مالک جیسے کہ قصاب، نائی وغیرہ
مسلم معاشرہ کے بہت مالدار لوگ ہوچکے ہیں۔اس لیے میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ
بات درست ہے کہ شریعت میں کاروبار میں منافع کمانے کی کوئی آخری حد متعین نہیں ہے؟
کیا شریعت نے اس بارے میں کوئی متعین اخلاقی حد نہیں متعین کی ہے؟ یا کیا معزز
علمائے کرام مسلم معاشرہ کو صحیح اسلامی کاروبار کی تصویر دکھانے کے ذمہ دار نہیں
ہیں اس پر قابو پانے کے لیے؟
میری اطلاع کے مطابق علمائے کرام
کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع کی کوئی متعین آخری حد نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا
جارہا ہے کہ اس فتوی کی وجہ سے تقریباً تمام کاروباری لوگ چاہے وہ خوردہ فروش ہوں،
تھوک فروش ہوں، یا صانع ہوں یا پیشہ ور ہو جیسے وکیل، ڈاکٹر وغیرہ وہ لوگ بہت زیادہ
اور حد سے زیادہ منافع لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مزید برآں، اب ہم قیامت کی ایک
علامت دیکھ رہے ہیں کہ ادنی اور حقیر کاروبار کے مالک جیسے کہ قصاب، نائی وغیرہ
مسلم معاشرہ کے بہت مالدار لوگ ہوچکے ہیں۔اس لیے میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ
بات درست ہے کہ شریعت میں کاروبار میں منافع کمانے کی کوئی آخری حد متعین نہیں ہے؟
کیا شریعت نے اس بارے میں کوئی متعین اخلاقی حد نہیں متعین کی ہے؟ یا کیا معزز
علمائے کرام مسلم معاشرہ کو صحیح اسلامی کاروبار کی تصویر دکھانے کے ذمہ دار نہیں
ہیں اس پر قابو پانے کے لیے؟
جواب نمبر: 13422
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1044=983/ب
یہ تو اپنی جگہ صحیح ہے کہ نفع لینے کی شریعت میں کوئی آخری حد نہیں بتائی گئی ہے، لیکن دوسری طرف شریعت نے غبن فاحش کے ساتھ کوئی چیز بیچنے کو بھی منع فرمایا ہے، یعنی اندھا دھند نفع جو بازار کے بھاوٴ کے خلاف ہو، لینا منع ہے۔ انسانی مروت کے خلاف ہے۔ شریعت میں یہاں تک تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی شہری دیہاتی کے ہاتھ سودا نہ بیچے کیونکہ دیہاتی سادہ لوح ہوتے ہیں، اور شہری چلتا پرزا ہوتا ہے، چرب زبان ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے وہ دیہاتی کو ٹھگ دے گا، اب ہم لوگ شریعت پر کہاں عمل کرتے ہیں، ہرآدمی حرص ولالچ میں پیسوں کا دیوانہ بنا ہوا ہے، علماء برابر سمجھاتے اور بتاتے رہتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہتے ہیں، مگر لوگ ماننے کے لیے تیار نہیں۔معاشرہ خراب کر رکھا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند