• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 10549

    عنوان:

    گجری کا کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ گجری کا مطلب ہے کہ اس کاروبار میں بیکار کی چیزیں جو استعمال کے لیے نہیں رہتی ان کو خریدا جاتا ہے جیسے بیکار پلاسٹک وغیرہ؟ (۲)کیا اس میں ہم ایسی چیزیں خرید سکتے ہیں جو اسلام میں ناجائز ہے، جیسے ٹی وی جو استعمال کے لیے نہیں رہتی اور اس کو توڑ کر پلاسٹک اور دوسری اشیاء میں ڈال دیا جاتا ہے؟ (۳)اگر اس کاروبار میں کوئی شخص چوری کی کوئی چیز بیچنے آیا اور اگر ہمیں معلوم ہے کہ یہ چوری کی ہے تو کیا حکم ہے او رمعلوم نہیں کہ کہاں سے لایا ہے تو کیا حکم ہے، کیا تحقیق واجب ہے؟ (۴)کیا اس سے پورا مال حرام ہوجائے گا؟

    سوال:

    (۱)گجری کا کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ گجری کا مطلب ہے کہ اس کاروبار میں بیکار کی چیزیں جو استعمال کے لیے نہیں رہتی ان کو خریدا جاتا ہے جیسے بیکار پلاسٹک وغیرہ؟ (۲)کیا اس میں ہم ایسی چیزیں خرید سکتے ہیں جو اسلام میں ناجائز ہے، جیسے ٹی وی جو استعمال کے لیے نہیں رہتی اور اس کو توڑ کر پلاسٹک اور دوسری اشیاء میں ڈال دیا جاتا ہے؟ (۳)اگر اس کاروبار میں کوئی شخص چوری کی کوئی چیز بیچنے آیا اور اگر ہمیں معلوم ہے کہ یہ چوری کی ہے تو کیا حکم ہے او رمعلوم نہیں کہ کہاں سے لایا ہے تو کیا حکم ہے، کیا تحقیق واجب ہے؟ (۴)کیا اس سے پورا مال حرام ہوجائے گا؟

    جواب نمبر: 10549

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 117=117/ د

     

    (۱) جائز ہے۔

    (۲) کباڑ کی حیثیت سے خریدنا اور کام کی چیزیں نکال کر ان کے جنس میں شامل کرلینا درست ہے۔

    (۳) اگر یہ تحقیق سے معلوم ہے کہ یہ سامان چوری کا ہے تو اس کے خریدنے سے احتراز کرے۔ اور اگر ناواقفیت میں خریدلیا تو گنجائش ہے۔ ظن غالب پر عمل کرنا کافی ہے تحقیق کرنا واجب نہیں ہے۔

    (۴) نہیں۔ مال حرام کا امتیاز کرنا ممکن ہو تو اسے علاحدہ کرکے صرف اس کے ساتھ حرام کا معاملہ کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند