• Social Matters >> Women's Issues

    Question ID: 57817Country: India

    Title: كیا عورت كو سارے گھر كا كھانا وغیرہ بنانا لازم وضروری ہے؟

    Question: دیڑھ سال پہلے میری بہن کی شادی ہوئی ہے، وہ اچھی تعلیم یافتہ ہے اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، شادی سے پہلے گھر میں نوکرانی ہونے کی وجہ سے وہ کھانا وغیرہ نہیں پکاتی تھی اورنہ ہی گھر کا کوئی کام کرتی تھی ۔شادی کے بعد شروع مہینوں میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ دہلی چلی گئی اور سارا گھریلو کام کیا، لیکن بچے کی ولادت کے بعد وہ اپنے سسرال جھارکھنڈ آئی جہاں اسے گھر کے سارے لوگوں کے لیے کھانا پکانے اور گھریلو کام کرنے پر مجبور کیا گیا، گھر کے لوگوں نے اس کو ذہنی اذیت دی۔پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ دہلی واپس آگئی ، اس کی ساس بھی اس کے ساتھ تھیں، اور پھر وہاں بھی اس کو گھرکا کام کرنے مجبور کیا گیا، نیزنوکرانی رکھنے سے منع کردیا گیا جس کی وجہ سے اس کی ساس اور شوہر کے درمیان جھگڑا ہونا شروع ہوگیا۔ شوہر اتنا مالدار ہے کہ نوکرانی رکھ سکتاہے، وہ 70000 روپئے مہینہ کماتاہے،کیا بیوی کے لیے نوکرانی رکھنا شوہر پر لازم نہیں ہے؟ اور کیا بیوی کے لیے شوہر کے سارے گھروالوں کے لیے کھانا پکانا ضروری ہے؟

    Answer ID: 57817

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa ID: 223-223/Sd=5/1436-U شرعاً عورت پر لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سارے گھر والوں کے لیے کھانا بنائے، شوہر کے لیے بیوی کو اس پر مجبور کرنا جائز نہیں اور یہ بات شوہر اور اس کے گھر والوں کے لیے اخلاقاً بھی زیبا نہیں ہے کہ سارے گھر کا بوجھ تنہا ایک عورت پر ڈالیں، خصوصاً جب کہ عورت کو اپنے گھر میں کام کرنے کی عادت بھی نہ ہو، شوہر سے متعلق گھریلو کام کاج کی ذمہ داری سنبھالنا بیوی پر اگرچہ دیانةً ضروری ہے؛ لیکن جب گھر میں کام زیادہ ہو اور بیوی کا تعلق شریف خاندان سے ہو، شادی سے پہلے اپنے گھر میں کام کرنے کی اس کو عادت بھی نہ ہو اور شوہر نوکرانی رکھنے پر قادر ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ نوکرانی کا انتظام کرے، بیوی کو بھی چاہیے کہ حتی الامکان گھریلو کاموں میں حصہ لے، اپنے آپ کو بالکل الگ نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے مابین یہ ترتیب قائم کی تھی کہ گھر کے باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق اور گھریلو کام حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذمے کیے تھے حالانکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ساری دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ گھریلو کاموں کاپورا بوجھ تنہا ایک عورت پر ڈالنا اور اس کو گھر کی ایک خادمہ کی حیثیت سے رکھنا یا عورت کا امورِ خانہ داری سے بالکل الگ رہنا، کاموں میں کسی طرح تعاون نہ کرنا دونوں ہی باتیں گھر کے ماحول کو خراب کرنے کا سبب ہیں، جانبین سے اگر ایک دوسرے کی رعایت ہوگی تو ماحول خوشگوار بنے گا اور رشتہ میں ہم آہنگی برقرار رہے گی۔ قال الحصکفي: امتنعت المرأة من الطحن والخبز إن کانت ممن لا تخدم أو کان بہا علة فعلیہ أن یأتیہا بطعام مہیإ وإلا بأن کانت ممن تخدم نفسہا وتقدر علی ذلک لا یجب علیہ ولا یجوز لہا أخذ الأجرة علی ذلک لوجوبہ علیہا دیانة ولو شریفة؛ لأنہ - علیہ الصلاة والسلام - قسم الأعمال بین علي وفاطمة، فجعل أعمال الخارج علی علي - رضي اللہ عنہ - والداخل علی فاطمة - رضي اللہ عنہا - مع أنہا سیدة نساء العالمین․ قال ابن عابدبن: قولہ: ”فعلیہ أن یأتیہا بطعام مہیأ“ أو یأتیہا بمن یکفیہا عمل الطبخ والخبز (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۲۳۰-۲۳۱، کتاب الطلاق، مطلب: لا تجب علی الأب نفقة زوجة ابنہ الصغیر، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت: وکذا في الفتاوی الہندیة: ۱/۵۹۸، کتاب الطلاق، الباب السابع، ط: اتحاد، دیوبند، وفتاوی دار العلوم: ۱۶/۴۷۸)

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India