• Miscellaneous >> Others

    Question ID: 156434Country: Pakistan

    Title: تعویذ پہننا جائز ہے یا نہیں

    Question: کیا فرماتے ہین مفتیان کرام اس بارے میں کہ (۱) تعویذ پہننا جائز ہے یا نہیں ،بعض سے سنا ہے بالکل بھی جائزنہیں اور کچھ فرماتے ہیں کہ جائز ہے۔ (۲) کافی سوالات اٹھتے ہیں اس بارے میں کہ یوں کہتے ہیں جو 70 ہزار لوگ بنا حساب کے جنت میں جائیں گے وہ جھاڑ پھونک اور تعویذات سے بچے ہوئے ہوں گے ۔ (۳) کیا تعویذ جو قرآنی آیت یا دعا لکھی ہوئی ہو تو اسے پہن سکتے ہیں؟ (۴) کیا ان کے بدلے مین کچھ ہدیہ دینا یا مانگ کر لینا جائز ہے؟ (۵) ہمارے ہاں سندھ میں تو کچھ دیوبندی عامل ہیں جو کہ بلکل مانگتے ہیں ، ان کا تو ریٹ مقرر ہوتا ہے کیا ان سے یہ تعویذ لینا جائز ہے ؟ (۶) کیا ہم ہر اس عامل سے لین جو یہ ہنر جانتا ہو یا صرف تقوی والے سے لیں؟ (۷) جامعہ الرشید کے ایک استاذ مفتی طارق مسعود تو عامل کے پاس جانے سے سختی سے منع کرتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ کوئی عامل ہو چاہے دیوبندی ہو ان سے جو تعویذ لے گا وہ ہمیشہ کیلئے پھنس جائے گا۔ (۸) پوچھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح کے عامل سے جن اور جادو کا علاج لے سکتے ہیں ؟ (۹) کیا اس مفتی صاحب کی رائے درست ہے ؟ یا اس کا یہ تفرد ہے ؟ (۱۰) جن اور جادو کے ختم کرنے کیلئے صحیح عقیدہ رکھنے والے عامل کے پاس جانا کیسا ہے چاہئے وہ عامل مانگ مقرر ریٹ لے کہ میں اتنا لوں گا اور کچھ عامل تو کہتے ہیں کہ میرے تعویذ شرطیہ ہیں۔ براہ کرم، تفصیل سے رہنمائی فرمائیں ۔

    Answer ID: 156434

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa:211-36/N=4/1439

     (۱،۳): اگر تعویذ میں کوئی شرکیہ ،کفریہ چیز نہ ہو ، نیز ایسے الفاظ بھی نہ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں؛ بلکہ اس میں قرآنی آیات، اسمائے حسنی ، منقول دعائیں یا کوئی جائز دعا وغیرہ ہو تو وہ تعویذ شرعاًجائز ودرست ہے اور ایسا تعویذ بنانا اور پہننا بھی جائز ہے،البتہ تعویذ کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے۔ اور جس تعویذ میں کوئی شرکیہ، کفریہ چیز ہو، مثلاً اس میں غیر اللہ کی دہائی یا غیر اللہ سے استعانت کے الفاظ ہوں یا اس میں ایسے الفاظ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں تو وہ ناجائز تعویذ ہے اور اس کا بنانا اور پہننا بھی ناجائز ہے۔

     عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ باللّٰہ بکلمات اللّٰہ التامة من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون،وکان عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ (سنن أبي داود ،کتاب الطب، باب کیف الرقی، ص: ۵۴۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وقد جاء في بعض الأحادیث جواز الرقي، وفي بعضہا النہي عنہا، فمن الجواز قولہ علیہ السلام: استرقوا لہا فإن بہا النظرة أي أطلبوا لہا من یرقیہا ومن النہي قولہ لا یسترقون ولا یکتوون، والأحادیث في القسمین کثیرة، ووجہ الجمع بینہما أن الرقي یکرہ منہما ما کان بغیر اللسان العربي وبغیر أسماء اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ وکلامہ في کتبہ المنزلة وأن یعتقد أن الرقیة نافعة لا محالة فیتکل علیہا وإیاہا (عمدة القاري، ۲۱:۲۶۲، ط:دار الکتب العلمیہ بیروت)،ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن، أو أسماء اللّٰہ تعالی، … وإنما تکرہ العوذة إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدري ما ہو، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس بہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس ۹:۵۲۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن المجتبی)، وأما ما کان من الآیات القرآنیة والأسماء والصفات الربانیة والدعوات المأثورة النبویة فلا بأس؛ بل یستحب، سواء کان تعویذًا أو رقیةً أو نشرةً، وأما علی لغة العبرانیة ونحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸:۳۶۰،۳۶۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،نیز احسن الفتاوی (۸: ۲۵۶) دیکھیں۔

    (۲): جی ہاں! جو لوگ محض توکل علی اللہ کی بنا پر علاج ومعالجہ، جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ سے پرہیزکرتے ہیں، وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کو حساب وکتاب کے بغیر جنت کا داخلہ نصیب ہوگا ؛ لیکن یہ توکل کا نہایت اعلی مقام ہے جو اللہ کے بعض خاص اور با ہمت بندوں کو حاصل ہوتا ہے، اور عام بندے اس مقام کو نہیں پاسکتے ، عام بندوں کے لیے تو علاج ومعالجہ وغیرہ جائز ہے؛بلکہ ان کے حق میں علاج ومعالجہ وغیرہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی سنت مبارکہ ہے؛ اس لیے اس حدیث سے تعویذ کے عدم جواز پر استدلال درست نہیں (شرح نووی بر صحیح مسلم، ۱: ۱۱۶، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔

    (۴):جو شخص تعویذ اور جھاڑ پھونک کے فن سے واقف ہو،وہ جائز تعویذات اور جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرکے اس پر محنت اور صرف اوقات کے لحاظ سے مناسب معاوضہ لے سکتا ہے، شرعاً اس کا ہدیہ لینا بھی جائز ہے اگرچہ مانگ کر ہو اور دینے والے کا دینا بھی جائز ہے ؛ البتہ دروغ گوئی اور دھوکہ دہی وغیرہ نہ کرے، حضرت ابو سعید خدری نے ایک قبیلہ کے سردار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کی، اور بطور معاوضہ اس پر چند بکریاں لیں ،مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللہ(مشکوة شریف، ص ۲۵۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)؛البتہ تعویذ گنڈے کو مستقل پیشہ اور ذریعہ معاش بنانا بہتر نہیں بالخصوص مقتدا حضرات کے لیے۔

    ولا بأس بالاستیجار علی الرقی والعلاجات کلھا(شرح معانی الآثار،کتاب الإجارات، باب الاستیجار علی تعلیم القرآن،۲: ۲۵۳،ط : المکتبة الأشرفیة دیوبند)،جوزوا الرقیة بالأجرة ولو بالقرآن کما ذکرہ الطحاوي؛لأنھا لیست عبادة محضة؛ بل من التداوي (رد المحتار،کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب: تحریر مھم في عدم جواز الاستیجار علی التلاوة والتھلیل ونحوہ مما لا ضرورة فیہ، ۹:۷۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،إن الرقیة لیست بقربة محضة فجاز أخذ الأجرة علیھا(تکملة فتح الملھم،باب جواز أخذ الأجرة علی الرقیة بالقرآن، ۴: ۳۳۰،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)، نیز فتاوی محمودیہ (۱۷: ۱۰۰،۱۰۴، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل) اور منتخبات نظام الفتاوی (۳: ۲۴۸، ۲۴۹، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز دہلی) وغیرہ دیکھیں۔

    (۵): اگر وہ متدین (دین دار) اور قابل اطمینان عامل ہوں تو ان سے تعویذ لے سکتے ہیں اگرچہ وہ تعویذ پر مناسب معاوضہ لیتے ہوں۔ اور اگر بلا معاوضہ والے عامل مل جائیں جو محض اللہ کے لیے خدمت خلق کرتے ہوں تو بہت بہتر ہے۔

    (۶): بہتر یہ ہے کہ تقوی والے سے لیں۔

    (۷): حقیقت تو یہی ہے کہ جو عامل کے چکر میں پڑتا ہے، وہ پھنس جاتا ہے اور آج کل بہت سے عاملوں نے پیشہ کی دکانیں کھول لی ہیں؛ اس لیے احادیث میں آئی ہوئی دعاوٴں کا اہتمام کرنا چاہیے، عاملوں کے چکر میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔ اور اگر کسی پر کوئی سخت سحر یا آسیبی آثرات ہوں تو مجبوری ہے۔

    (۸- ۱۰): ان سب باتوں کا جواب اوپر آگیا۔ 

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India